پیرس (لاہورنامہ) فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہو گئے۔ یورپی یونین کے بنیادی ملک کے طور پر، فرانس ہمیشہ یورپی انضمام کو فروغ دینے اور سٹریٹجک خودمختاری سے جڑے رہنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
منگل کے روز چینی میڈ یا کے ایک تبصرہ کے مطا بق میکرون نے اس موقع پر کہا کہ وہ پہلی مدت کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے اور ایک "مزید خود مختار” فرانس قائم کریں گے، لیکن یہ ایک چیلنج بھی ہے جس کا انہیں دوسری مدت میں سامنا ہے۔ یہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ یوکرین کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ "مفادات کے اختلافات” سے کیسے نمٹا جائے۔
روس۔یوکرائنی تنازعہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ کو درپیش سب سے سنگین بحران ہے، اور بات چیت کے ذریعے حل اس کے بہترین مفاد میں ہے۔ میکرون نے بھی بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ صورت حال کو مزید نہیں بڑھنا چاہیے۔ تاہم، امریکہ کے اکسانے پر، یورپ روس پر پابندیوں میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے جس کا ردعمل بھی تیزی سے سامنے آ رہا ہے۔
یورپی یونین کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورو زون میں افراط زر کی شرح مارچ میں ریکارڈ 7.4 فیصد تک پہنچ گئی اور بعض ممالک میں افراط زر کی شرح 15.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ توانائی کی قیمتوں اور اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے یورپی شہریوں کو شکایات پر مجبور کر دیا ہے۔
یورپی کمپنیوں کو دبانے سے لے کر یورپی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے تک، اتحادیوں کو بتائے بغیر یکطرفہ طور پر افغانستان سے فوجوں کے انخلاء تک، امریکہ نے جو کچھ کیا ہے یورپ اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں امریکہ پر اپنے سٹریٹجک انحصار سے چھٹکارا حاصل کرنے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ یورپ کی تقدیر خود یورپیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ دنیا کو تزویراتی طور پر خودمختار یورپ کی ضرورت ہے، اور یورپ ایک ہنگامہ خیز اور بدلتی ہوئی دنیا میں مزید استحکام اور اعتماد کا محرک ہو سکتا ہے۔