بیجنگ (لاہورنامہ)یکم جنوری کو آر سی ای پی کے نفاذ کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے ۔ اس کے نفاذ کے بعد سے بے شمارکاروباری اداروں کے لیے نئے مواقع سامنے آئے ہیں ۔
آسیان کی تجویز پر قائم ہونے والی آر سی ای پی کے ارکان میں 10 آسیان ممالک سمیت چین ، جاپان ، جنوبی کوریا ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈشامل ہیں ۔یہ آبادی ، معیشت اور تجارتی پیمانے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ ہے اور ایک سال قبل اپنے نفاذ کے بعد سے یہ اب تک 15 دستخط کنندہ ممالک میں سے 13 کے لئے نافذ العمل ہوچکا ہے۔
فی الحال، عالمی معیشت کو کمزور بحالی اورعالمگیریت مخالف چیلنجز کا سامنا ہے، اس کے پس منظر میں آر سی ای پی کو "دھند میں ایک روشنی” سمجھا جاتا ہے، جو عالمی معیشت میں "ایشیا -بحر الکاہل کی قوت” کو شامل کرتا ہے . آر سی ای پی میں چین کی شمولیت اس کے اعلی سطحی کھلے پن کے عزم کی عکاس ہے اور چین کے لیے ، اپنے دروازے کو مزید کھولنے کے سلسلے کا ایک اور سنگ میل ہے۔
آر سی ای پی کے لئے چین کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک اور دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر، آر سی ای پی کی معیشت میں چین کا حصہ تقریبا 60 فیصد بنتا ہے۔ چین اپنی نئی ترقی سے دنیا کو نئے مواقع فراہم کرنے نیز علاقائی اور عالمی معیشت میں مضبوط توانائی کو شامل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ سال، چین اور اس کےآزاد علاقائی تجارتی شراکت داروں کے درمیان سامان کی تجارت کے 90 فیصد سے زیادہ نے بتدریج صفر ٹیرف حاصل کیا ہے ، اس طرح علاقائی اقتصادی انضمام کو فروغ ملا ۔
آر سی ای پی کے مزید اعلی معیار کے نفاذ کے ساتھ ساتھ تمام ارکان باہمی فائدے اور جیت جیت کے نتائج کا ایک نیا باب رقم کریں گے اور علاقائی اور عالمی معیشت کی ترقی کے لئے مضبوط قوت فراہم کریں گے ۔