واشنگٹن (لاہورنامہ) حالیہ دنوں امریکی قدامت پسند تنظیم پروجیکٹ ویری ٹاس کی جانب سے خفیہ طور پر لی گئی ویڈیوز نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا۔
ویڈیوز میں امریکی کمپنی فائزر میں اسٹریٹجک آپریشنز اور ایم آر این اے سائنسی منصوبہ بندی کے ڈائریکٹر جورڈن واکر نے کورونا وائرس ویرینٹ پر بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ فائزر کووڈ وائرس پر” گین آف فنکشن” کا تجربہ کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ نیا کووڈ ویرینٹ تخلیق کیا جائے اور اس کے لئے قبل از وقت متعلقہ ویکسین تیار کی جا سکے۔
واکر کا کہنا تھا کہ آنے والے ایک عرصے میں کورونا وائرس ہمارے منافع میں اضافے کے لیے ایک "کیش کاؤ ” رہےگا۔جب مسٹرواکر کو ان خفیہ ویڈیوز کے بارے میں پتہ چلا تو وہ گھبراکر کہنے لگے کہ ان کی وائرس ریسرچ کا مقصد محض اپنے دوستوں کو متاثر کرنا ہے۔
فائزر نے بھی فوری طور پر اپنے ایک بیان میں ” گین آف فنکشن” منصوبے کو مسترد کردیا ، تاہم کمپنی کی جانب سے مسٹر واکر کی فائزر میں موجودہ "حیثیت” سے انکار نہیں کیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس وقت جورڈن واکر لاپتہ ہو گئے ہیں۔
گین آف فنکشن تحقیق، جسے وائرس فنکشن ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے، سے مراد جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے وائرس کو تبدیل کرکے نئے تشکیل شدہ وائرس کے افعال کو بڑھاناہے۔ مثال کے طور پرنئے کورونا وائرس کے کچھ جین گروپس کو تبدیل کرنے سے نیا وائرس زیادہ آسانی سے انسانی خلیات سے جڑ سکتا ہے اور وائرس کے پھیلنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے.
وائرس فنکشن ٹیسٹ کوئی نئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ امریکی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے شعبہ وبائی امراض کے پروفیسر رالف بیرک اور ان کی ٹیم نے 2013 میں ہی مرس وائرس کی ترکیب کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیاتھا تاکہ پیتھوجینز کی تفہیم میں اضافہ کیا جا سکے اور ویکسین اور ادویہ کی قبل از وقت تیاری ہو سکے۔
کووڈ کی دوا ریمڈیسوائر کی تحقیق اور تیاری میں بھی بیرک کی مدد حاصل کی گئی تھی لیکن وائرس فنکشن ٹیسٹ میں خطرات بہت زیادہ ہیں. پروفیسر بیرک کی ٹیم کی حیاتیاتی لیبارٹری میں لیکس کے متعدد واقعات سامنے آ چکے تھے اور امریکی حکومت نے 2014 میں متعلقہ تحقیق کی فنڈنگ معطل کر دی تھی مگر 2017 میں متعلقہ ٹرائلز پر عائد پابندی اٹھا لی گئی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فائزر پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ فائزر کی کووڈ ویکسین خریداری سے متعلق آڈٹ کے انچارج یورپی پارلیمنٹ کے رکن میسلاف کولاکوسیک نے گزشتہ سال فائزر کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کے آڈٹ کے دوران یہ انکشاف کیا کہ چین نے کووڈ وائرس کا اعلان گیارہ جنوری دو ہزار بیس کو کیا تھا.
لیکن اس کے صرف تین دنوں بعد ہی فائزر نے کووڈ ویکسین کے کلینکل ٹرائلز شروع کر دیے تھے۔جناب میسلاف نے ایک ثبوت بھی پیش کیا کہ فائزر نے دو ہزار سترہ میں ہی کووڈ ویکسین کا ٹیسٹ کر رکھا تھا۔یعنیٰ، فائزر کی جانب سے کووڈ ویکسین کا ٹیسٹ وائرس کی دریافت سے چند سال پہلے ہی کر لیا گیا تھا ۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ یورپی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے سوال اٹھائے جانے کے بعد فائزر نے جواب دینے سے انکار کردیا۔
وبائی صورتحال کے گزشتہ تین سالوں میں دنیا بھر کے صنعتی و کاروباری اداروں کو بقاء کے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔لیکن فائزر کمپنی نے کووڈ ویکسین اور نام نہاد مخصوص دوا کی بدولت زبردست منافع کمایا ہے۔فائزر کی مالی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو ہزار بائیس میں کمپنی کے متوقع منافع کا حجم ایک کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ ہوگا جبکہ اس میں کووڈ سے وابستہ دوا کی کمائی کا تناسب پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔
حقائق کے تناظر میں مسلسل تبدیل ہوتے نئے کورونا وائرس کے سامنے وائرس فنکشن ٹیسٹنگ ٹیکنالوجی شائد سائنسی تحقیق کا ایک مؤثر طریقہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جہاں منافع کمانے کی دُھن آسمان سے باتیں کرتی ہو ، وہاں سائنسی ٹیکنالوجی کے اخلاقی خطرے پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ سو ، فائزر نے کووڈ وائرس کی تحقیق کے حوالے سے اخلاقیات کی خلاف ورزی کی تھی یا نہیں، اس سوال کا جواب صرف حقائق بتا سکتے ہیں۔
یا شائد تاحیات اس راز سے کبھی پردہ نہیں اُٹھ سکے گا۔ صحت عامہ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی کمیٹی نے تیس جنوری کو جاری کردہ رپورٹ میں کووڈ کے مسلسل خطرات پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کووڈ کے نئے ویرینٹ کے حوالے سے غیریقینی بدستور موجود ہے۔
یہ سمجھنا چاہیئے کہ وائرس سے لڑنےمیں سائنس بذات خود تمام مسائل کا حل نہیں ہے ،ہمیں اخلاقیات کی باٹم لائن پر قائم رہنا ہوگا۔آخرکار اس دنیا میں انسان کا واحد فطری دشمن خود انسان ہی ہوتا ہے۔