اسلام آباد (لاہورنامہ)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے، ہمیں ورثہ میں تباہ حال معیشت اور ڈیفالٹ کرتا ہوا ملک ملا جسے ہم نے بچایا.
عمران خان نے چار سال میں ملکی ساکھ دائو پر لگائی، ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لئے، آئی ایم ایف کا پروگرام دستخط کر کے اس کی خلاف ورزی کی، عمران خان کی گرفتاری سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، قومی احتساب بیورو نے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جسمانی ریمانڈ پر موجود ملزم کو اتنا بڑا ریلیف ملا ہو.
عمران خان سے پوچھ گچھ یا تفتیش کی جائے تو تشدد پر اتر آتے ہیں، انتخابات کے حوالے سے آئین اور قانون موجود ہے، انتخابات اس وقت ہوں گے جب ہم اپنی آئینی مدت پوری کرلیں گے۔
عالمی نشریاتی ادارے ”الجزیرہ” کو دیئے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کو گرفتار کر کے ہم نے کوئی ہدف حاصل نہیں کرنا تھا، ان کی گرفتاری سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، عمران خان کو قومی احتساب بیورو نے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں گرفتار کیا.
نیب اس کیس کی تحقیقات کر رہا ہے اور نیب نے عمران خان کو کئی نوٹسز جاری کئے تاہم عمران خان نے نیب کے کسی نوٹس کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا۔
ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب عمران خان اقتدار میں تھے اور اپوزیشن ان سے سوال پوچھتی تو وہ اسے ڈیتھ سیل میں بھیج دیتے، میڈیا سوال پوچھتا تو میڈیا کے لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا۔ انہوںنے کہاکہ آر ایس ایف کی رپورٹ میں عمران خان کو میڈیا پریڈیٹر کہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ملک کے چیف ایگزیکٹو کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہ چکے تھے، جب وہ اپوزیشن میں آئے تو ان سے مختلف کرپشن کیسز کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں نے تشدد کی راہ اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے اور نیب میں مختلف مقدمات کی تفتیش جاری ہے جس کا عمران خان نے جواب دینا ہے اور عمران خان جواب دینے کیلئے تیار نہیں، یہ سلسلہ گزشتہ 14 ماہ سے جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے عمران خان کے وارنٹ جاری کئے تو پولیس عدالتی وارنٹ کی تعمیل کیلئے زمان پارک گئی، اس وقت بھی عمران خان نے تشدد کی راہ اختیار کی اور اپنے تحفظ کیلئے خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس پر وہاں پٹرول بموں سے حملے کئے گئے،اس کے علاوہ عمران خان نے 25 مئی کے لانگ مارچ کے موقع پر بھی اپنے کارکنوں کو ایسے ہی تشدد پر اکسایا تھا، پلوں کو توڑا، ریاستی و عوامی املاک اور میٹرو اسٹیشنوں پر حملے کئے، جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کی، جوڈیشل کمپلیکس کا کوئی دروازہ کھڑکی نہیں بچا تھا، ان کے پاس کلاشنکوفیں اور پٹرول بم تھے۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان کی طرف سے ایسا گھنائونا کھیل تسلسل سے جاری ہے،جب بھی ان سے پوچھ گچھ یا تفتیش کی جاتی ہے تو وہ تشدد پر اتر آتے ہیں اور اپنے لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ نیب نے جب عدالت کے احاطے سے عمران خان کو گرفتار کیا تو تین دن ملک کے اندر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری پر کوئی سیاسی ردعمل نہیں آیا کیونکہ سیاسی ردعمل میں بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلتے ہیں تاہم سب نے دیکھا کہ مختلف جگہوں پر لوگوں کو اکٹھا کر کے تشدد پر اکسایا گیا اور پھر پی ٹی آئی کی قیادت اس عمل کی نگرانی بھی کرتی رہی کہ کتنے لوگ لاہور میں جناح ہائوس، کور کمانڈر ہائوس اور میٹرو کے پلوں پر پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنے شہریوں کو تحفظ دینا ہے، مریضوں کو بچانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے مسلح جتھوں نے ایمبولینسوں سے مریضوں کو باہر نکال کر ایمبولینسوں کو آگ لگائی، سکولوں پر حملے کئے، ہسپتال جلائے، مویشی منڈی کو آگ لگائی، یہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے لیکن اس ساری صورتحال میں حکومت نے بڑی دانشمندی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کرپشن کے کیس میں جواب نہیں دیئے تھے، وہ جسمانی ریمانڈ پر تھے اور اس سب کے باوجود وہ 48 گھنٹے میں جیل سے باہر آ گئے، ملک کی تاریخ میں آج تک ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت نے ساری صورتحال میں بالغ نظری سے کام لیا، ہمیں معلوم تھا کہ ایک شخص لوگوں کو تشدد پر اکسا رہا ہے، اس کا مائنڈ سیٹ ہی ایسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست محض حکومت نہیں، یہ ایگزیکٹو، عدلیہ اور پارلیمنٹ ہے اور ریاست کی رٹ قائم کرنا ان تینوں ستونوں کی ذمہ داری ہے۔
عمران خان کے خلاف مقدمات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایک سو مقدمے عمران خان کا جھوٹا بھاشن ہے، ان کا ہمیشہ ایسا ہی بیانیہ رہا ہے، عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ، توشہ خانہ، القادر ٹرسٹ کرپشن اور ٹیریان کے کیسز ہیں، عمران خان ان کیسوں میں جواب دینے کے لئے تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف ہے اور انہیں کسی سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، اگر ہم ایسا کرنا چاہتے تو ہم 14 ماہ تک انتظار نہ کرتے، سائفر کے معاملے پر جس مضحکہ خیز انداز سے عمران خان آگے بڑھ رہے تھے اگر ہم چاہتے تو وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔
ہمارے پاس حکومت کی طاقت بھی تھی اور اختیار بھی تھا، ہم انہیں گرفتار کر سکتے تھے تاہم ہم سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتے،اس کے برعکس عمران خان نے اپنے دور میں اپوزیشن کے خلاف ناجائز اختیارات کا استعمال کیا۔ ملک میں انتخابات کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں.
پھر پرویز الٰہی جو ان کے وزیراعلیٰ تھے، نے خود میڈیا پر واضح الفاظ میں کہا کہ وہ کبھی بھی پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اس وقت اقتدار سے باہر ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ انتخابات عمران خان کی مرضی کے وقت ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے آئین اور قانون موجود ہے، انتخابات اس وقت ہوں گے جب ہم اپنی آئینی مدت پوری کرلیں گے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کے چار سالہ دور میں ہم پر جعلی اور بے بنیاد مقدمات قائم کئے گئے، ایک سال سے زائد وقت تک ہمارے مقدمات سنے ہی نہیں جاتے تھے لیکن اس کے برعکس عمران خان اپنے خلاف کسی کیس میں عدالت نہیں گئے، جب وہ گرفتار ہوئے تو جسمانی ریمانڈ پر تھے اور ان کی تمام کیسوں میں ضمانتیں ہوئیں۔
دنیا میں کسی جگہ اس طرح نہیں ہوتا۔ معاشی صورتحال کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان کے چار سالوں میں معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا اس کی مثال نہیں ملتی، جب 2018ئ میں ہم حکومت میں تھے تو اس وقت جی ڈی پی 6 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی، ملک میں تاریخ کی سب سے کم ترین مہنگائی 2.6 فیصد تھی۔
آئی ایم ایف کا پروگرام 2015ئ میں مکمل کرلیا گیا تھا، سی پیک چل رہا تھا، روزگار تھا، ترقی ہو رہی تھی، سکول تعمیر ہو رہے تھے، یونیورسٹیاں بن رہی تھیں، خارجہ پالیسی زبردست تھی، سی پیک عروج پر تھا، ہمسایہ ملکوں اور علاقائی ممالک کے ساتھ بہت سے منصوبے چل رہے تھے اور جب عمران خان کا دور شروع ہوا تو عمران خان نے چار سال میں معیشت کا بیڑہ غرق کیا، انہوں نے تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا۔