بیجنگ (لاہورنامہ) حال ہی میں کئی ممالک کے ماہرین اور اسکالرز نے چائنا میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ چند روز قبل منعقد ہونے والی چین وسطی ایشیا سمٹ اسٹریٹجک باہمی اعتماد، اتحاد اور تعاون اور باہمی فائدے اور جیت جیت کے تعاون کے لیے پرعزم ہے، جو کہ تقسیم پیدا کرنے کے لیے ایک ہی وقت میں ہونے والے جی سیون سربراہ اجلاس کے بالکل برعکس ہے۔
پاکستانی تجزیہ کار محمد فیاض کیانی نے سی ایم جی اردو سروس کے نامہ نگار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ صدر شی جن پھنگ نے سمٹ میں چین وسطی ایشیا ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی وکالت کی اور اس بات پر زور دیا کہ نئے دور میں چین اور وسطی ایشیا کے تعلقات میں مضبوط قوت محرکہ موجود ہے۔
محمد فیاض کیانی کا ماننا ہے کہ یہ سنگ بنیاد سربراہی اجلاس چین اور وسطی ایشیا کے تعلقات میں ایک نئے ہم نصیب دور کے آغاز کی علامت ہے۔
مشہور جاپانی اسکالر اور ہیگاشی نپون انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر سیاونجی کازوتورو نے چین وسطی ایشیا کے سربراہ اجلاس کا موازنہ جاپان کے شہر ہیروشیما میں ہونے والے جی سیون سمٹ سے کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک چین کو بدنام کرنے اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ ایک ایسی کانفرنس ہے جو دنیا کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ چین وسطی ایشیا سمٹ ممالک کو جوڑنے کے لئے ایک عظیم الشان تقریب ہے۔ صدر شی جن پھنگ کی تقریر "انسانیت کے ہم نصیب معاشرے” کے تصور پر مبنی تھی اور چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے مابین اسٹریٹجک باہمی اعتماد، اتحاد اور تعاون، باہمی فائدے اور جیت جیت تعاون پر مرکوز تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کہ "بیلٹ اینڈ روڈ” اقدام کی مشترکہ تعمیر چین کی جانب سے تجویز کی گئی تھی لیکن نہ صرف چین کے لیے بلکہ اس کا مقصد چین کو یوریشیا اور دنیا سے جوڑنا ہے جو عالمی امن اور تمام انسانیت کے نقطہ نظر سے ایک عظیم اقدام ہے اور اس اقدام پر عمل درآمد کے لیے پانچ وسطی ایشیائی ممالک مثالی اور اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں۔