بیجنگ (لاہورنامہ)چینی حکومت نے باضابطہ طور پر ” بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا: چین کے انیشی ایٹو اور عملی اقدامات” نامی وائٹ پیپر جاری کیا۔
بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے تصور کی پیشکش کی دسویں سالگرہ کے موقع پر، یہ نہ صرف دنیا کے تمام ممالک کے لئے ایک خوشحال اور خوبصورت مستقبل کی تعمیر میں چین کی دانشمندی کو ثابت کرتا ہے ، بلکہ دنیا کے لئے بحران سے نکلنے کا بہترین فارمولہ بھی ہے۔
جمعرات کے روز چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا گزشتہ ایک صدی میں بڑی تبدیلیوں سے گزری ہے اور اب بھی اسے بے مثال چیلنجوں کا سامنا ہے۔ آج، بین الاقوامی اسٹریٹجک مسابقت تیزی سے شدید ہوتی جا رہی ہے، بڑی طاقتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے.
سرد جنگ کی ذہنیت اور نظریاتی محاذ آرائی نے بین الاقوامی دنیا میں دوبارہ اپنی جگہ بنائی ہے، زیرو سم گیمز جیسے تسلط پسندانہ اقدامات انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں اور دہشت گردی، سائبر حملے، سرحد پار جرائم اور بائیو سیکیورٹی جیسے غیر روایتی سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی شعبے میں کورونا وبا نے گزشتہ چند سالوں میں عالمی معیشت کو کمزور کیا ہے اور اب بھی معاشی بحالی کمزوری کا شکار ہے۔
دنیا میں یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہےاوربعض ممالک سپلائی چین کو نام نہاد "ڈی رسکنگ” کی اصطلاح سے جوڑ کر متاثر کرنے میں مصروف ہیں جس سے معاشی عالمگیریت کو منفی لہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مسئلہ بھی مزید شدت اختیار کر گیا ہے، اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق اور تکنیکی خلا زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے.
ان چیلنجوں اور مشکلات کا گہرا تعلق بڑی حد تک طاقتور ملک کی بالادستی، جنگل کا قانون اور زیرو سم گیم کی پرانی سوچ سے ہے۔ طاقتور ملک کی بالادستی کا نظریہ انسانی تاریخ میں بڑی طاقتوں کی تسلط پسندانہ جنگوں کے تباہ کن عمل کی عکاسی کرتا ہے، اور اس کی منطق جنگل کے قانون کو انسانی معاشرے میں سوچے بغیر منتقل کرتی ہے.
جو بنیادی طور پر ریاستوں کی خودمختاری میں مساوات اور عالمی امن و استحکام کے اصول کو کمزور کرتی ہے۔جبکہ زیرو سم سوچ مطلق سلامتی اور اجارہ داری کی برتریوں کےساتھ عالمی امن اور خوشحالی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی پرانی سوچ اور روایتی نظریات اب انسانیت کو درپیش مشکلات کو دور کرنے میں رہنمائی فراہم نہیں کرسکتے ۔
اسی لیے ایک ایسا نیا تصور جو تاریخ کے رجحان سے مطابقت رکھتا ہو ، وقت کا تقاضہ ہے۔امن اور ترقی انسانیت کی سب سے سادہ خواہشات ہیں۔ جنگی تجربات کے بعد ، آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں امن کی قدر اور مشترکہ ترقی کا شعور عوام میں نمایاں ہوتا جا رہا ہے اور انسانی خاندان کا تصور لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑ چکا ہے۔
سنگین عالمی بحران کے پیش نظر ، علیحدہ لڑنا یا مل کر کام کرنا ؟ یہ نہ صرف تیکنیکی طور پر ایک سادہ فیصلہ ہے، بلکہ انسانی اخلاقیات کی سطح پر ایک اسٹریٹجک انتخاب بھی ہے.
بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کا تصور کھلے پن، شمولیت، انصاف اور مساوات، ہم آہنگ بقائے باہمی، تنوع اور باہمی سیکھنے، اتحاد اور تعاون کی وکالت کرتا ہے۔
دنیا کی تقدیر پر کنٹرول تمام ممالک کو مشترکہ طور پر کرنا ہوگا، بین الاقوامی ضوابط تمام ممالک کو مل کر طے کرنے ہونگے، عالمی امور کی حکمرانی تمام ممالک کو مشترکہ طور پر کرنا ہوگی کیوں کہ ترقی کے ثمرات تمام ممالک کو مل کر شیئر کرنے چاہئیں۔
یہ ہے بین الاقوامی تعلقات میں اصل جمہوریت۔ دنیا کو بالادستی کی بجائے انصاف کی ضرورت ہے اور بین الاقوامی قوانین کو دوہرے معیار کے بغیر مساوی اور یکساں طور پر لاگو کیا جانا چاہیے۔ تمام ممالک کو اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ ترقی کی تکمیل کرنا ہوگی کیوں کہ تہذیبوں کے مابین تبادلے اور باہمی سیکھ انسانیت کی ترقی کے لئے ایک اہم محرک قوت ہے۔
صرف مل کر کام کرنے سے ہی تمام ممالک عالمی ترقی کے چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی مشترکہ تعمیر بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کا ایک روشن عمل ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے لے کر گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو تک چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے تصور کو مسلسل فروغ دیتے ہوئے دنیا کو اعتماد اور زبردست فوائد فراہم کئے ہیں۔
چین نے تقریبا 20 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ایتھوپیا، پاکستان اور نائیجیریا سمیت تقریبا 60 ممالک میں 130 سے زائد منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے، جن میں غربت میں کمی، غذائی تحفظ، انسداد وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ان منصوبوں سے 30 ملین سے زائد افراد مستفید ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے 2030 تک دنیا کو سالانہ 1.6 ٹریلین ڈالر کے فوائد حاصل ہوں گے۔
ترقی کی راہ میں حائل پرانی سوچ کو بدل کر ہی انسانی معاشرہ امن، ترقی اور خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ رواں سال چین کی ثالثی کے باعث سعودی عرب اور ایران کے درمیان تاریخی مفاہمت گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کی تازہ ترین کامیاب مثال ہے۔
اس وقت 100 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کی حمایت کی ہے اور اقوام متحدہ میں قائم "گروپ آف فرینڈز آف دی گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو” میں 70 سے زائد ممالک نے شرکت کی ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی اس وسیع پیمانے پر شرکت کی وجہ، اس کا بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور اور عملی اثرات کو تسلیم کرنا ہے۔
بنی نوع انسان کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک نظام کو دوسرے نظام سے تبدیل کیا جائے اور ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے تبدیل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
ہمارا ایک ہی خاندان ہے. مشترکہ معاملات، مشترکہ فیصلے۔ مشترکہ چیلنجز، مشترکہ سامنا۔ یہ سادہ سا تصور ریاستوں کے تعلقات کے منطقی ڈیزائن، تہذیبوں میں امن اور ہم آہنگی کی تلاش اور چینی تاریخ کے وافر کامیاب تجربات سمیت ایک بڑے اور اہم ملک کے احساس ذمہ داری سے پیدا ہوتا ہے۔
بنی نوع انسان کا ہم نصیب معاشرے کا تصور طاقت کی بالادستی کی منطق سے بالاتر ہے اور یقیناً انسانی معاشرے کو حقیقت اور تاریخ کے مشکل حالات سے نکلنے اور مشترکہ ترقی اور پائیدار خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہونے میں رہنمائی فراہم کرےگا۔