بیجنگ (لاہورنامہ)حال ہی میں برطانوی میڈیا نے یہ خبر دی کہ برٹش نیشنل گرڈ نے ‘سیفٹی’ کی بنیاد پر چینی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ ماڈیولز کو ہٹا دیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق چینی کمپنی کے ملازمین کا کہنا تھا کہ کمپنی نے ماضی میں نیشنل گرڈ کے ساتھ سائبر سیکیورٹی کے معاملات پر بات چیت کی تھی اور انہیں کوئی مسئلہ نہیں ملا۔ اگر کوئی خطرہ نہیں ہے، تو اچانک نام نہاد سکیورٹی کا مسئلہ کیوں پیدا ہوا ہے؟
ماہرین کی نظر میں برطانیہ اس لئے ‘سیکیورٹی’ کو بیان بازی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے چینی کمپنیوں پر ‘دھوکہ دہی’ کے الزامات عائد کر رہا ہے کہ ایک طرف وہ امریکا کی پیروی کرتے ہوئے چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر دباو ڈال رہا ہے اور دوسری طرف برطانیہ میں اگلے سال عام انتخابات کے پیش نظر حکمران جماعت کو امید ہے کہ وہ چین کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کے ذریعے مزید ووٹ حاصل کرے گی۔
اطلاع کے مطابق اس واقعے سے وابستہ چینی کاروباری ادارے صنعتی کنٹرول اور صاف توانائی کے شعبے میں معروف کاروباری ادارے ہیں،جن کے پاس خود تحقیق کرنے کی مضبوط صلاحیت موجود ہے. ایسی کمپنی کا کردار آسانی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔
برطانیہ کو مارکیٹ کے قوانین کو نظر انداز کرکے چینی سپلائرز کو خارج کرنے سے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ برطانیہ نے آئندہ سال جنوری سے توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا ہے اور عام گھرانوں کے لیے سالانہ توانائی بل کی حد 1834 پاؤنڈز سے بڑھا کر 1928 پاؤنڈ زکر دی ہے، جس کا مطلب ہے کہ برطانوی عوام کو اس حوالے سے زیادہ بوجھ کا سامنا کرنا پڑےگا۔
چینی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ ماڈیولز کو ہٹانے کے ساتھ ہی برطانیہ کے نیشنل گرڈ کو متبادل تلاش کرنے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ برطانیہ کی جانب سے ہر قیمت پر کاروبار اور ٹیکنالوجی کے معاملات کو سیاسی رنگ دینے سے برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے والی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کا اعتماد کمزور ہوگا۔
برطانیہ میں عقلمند لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ چین شراکت دار اور ترقی کا موقع ہے ،اور چین اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کا صحیح طریقہ کار یہ ہوگا کہ عملی تعاون ، باہمی فائدے اور مشترکہ کامیابیوں کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کی صحت مند اور مستحکم ترقی کو فروغ دیا جائے اور پوری دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے۔