مجموعی قومی

مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے قرضوں کی شرح کو کم کیا جائے گا،وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر

اسلام آباد (اے پی پی) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے قرضوں کی شرح کو کم کیا جائے گا اور مارچ 2019ء تک صرف 4.2 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لئے گئے، جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح مالی ذمہ داری اور قرض کی حد کے تناسب (ایف آر ڈی ایل) سے زائد ہے۔

بدھ کو معروف ڈیجیٹل اینڈ سوشل میڈیا فورمز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اس میں بتدریج کمی کرے گی اور 2023ء تک اپنی حکومت کے اختتام تک اس کو بہتر پوزیشن پر لے آئے گی جو 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے موقع پر تھی۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی پر قرضوں کی شرح بتدریج کم ہو رہی ہے لیکن یہ اب بھی ایف آر ڈی ایل کے معیار کو پورا نہیں کر رہی کیونکہ اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا اور اس کی شرح میں مسلسل اضافہ کا رجحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی پر قرضوں کی شرح اور اس کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے بعد حکومت اس میں کمی کیلئے اقدامات کرے گی۔ انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ 2023ء تک بھی ایف آر ڈی ایل کے معیار کو حاصل کرنے میں مشکلات ہوں گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں میں ایک تہائی کمی ہوئی ہے اور رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں جولائی تا مارچ 2018-19ء کے دوران ہم نے 4.2 ارب روپے ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کئے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جولائی تا مارچ 2017-18ء کے دوران 6.7 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لئے تھے تاہم انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ گذشتہ حکومت کے دور میں اسی عرصہ کے دوران حاصل کئے گئے مقامی قرضوں کے مقابلہ میں موجودہ حکومت کے ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سابقہ حکومت کے آخری سال کے مقابلہ میں موجودہ حکومت کے قرضوں میں معمولی ردوبدل ہوا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی ابتداء میں ہی قرضے ملے تھے اور اگر ماضی کی حکومت کی معیشت مستحکم تھی تو پھر موجودہ حکومت کو بھاری قرضے کیوں ملے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے اپنے اقتدار کے اختتام پر بہت زیادہ قرضے لئے یہی بنیادی فرق ہے۔ وفاقی وزیر نے اس بات کا ذکر کیا کہ قومی معیشت کو بحران کی صورتحال سے نکالا جا چکا ہے انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ملکی معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنے کیلئے سخت فیصلے کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو حسابات جاریہ کا بھاری خسارہ ورثہ میں ملا تھا، زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم حدوں کو چھو رہے تھے، حسابات جاریہ کا خسارہ بلند ترین سطح پر تھا لیکن اس کے برعکس اب صورتحال بہتر ہوئی ہے اور مزید بہتری کی جانب جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ 2023ء تک 8 ہزار ارب روپے کا حکومتی آمدنی کا ہدف حقیقت پر مبنی ہے اور حقائق پر مبنی اعداد و شمار کی بنیاد پر اس کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ہی ٹیکس وصولیوں کا یہ ہدف مقرر کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی میں کمی سمیت دیگر کئی اسباب کے باعث رواں مالی سال کے دوران شرح نمو میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات اور درآمدات کی قیمتوں میں کمی سے بھی ٹیکس وصولیاں متاثر ہوئی ہیں۔ اس موقع پر ریونیو کے وزیر مملکت حماد اظہر نے کہا کہ حکومت نے 2018ء میں ٹیکس کلچر کے فروغ کیلئے آگاہی مہم شروع کی تھی جس کے نتیجہ میں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی شرح میں 34 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آڈٹ سسٹم کے قوانین میں بہتری کے ذریعے ایف بی آر کے مسائل کے خاتمہ کیلئے انتہائی سنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ وصولیوں کے نظام میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے فروغ کیلئے بھی اقدامات کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے ادائیگیوں کے توازن کے مسائل پر قابو پانے کیلئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانے کے حکومتی فیصلہ کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے معیشت اور عوام پر بوجھ پڑے گا لیکن یہ اقتصادی استحکام کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت یہ نہ کرتی تو اس سے بھی مسائل پیدا ہوتے اور معیشت پر مزید بوجھ پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر سے پاکستان کو کئی طرح کے فائدے حاصل ہوئے ہیں تاہم انہوں نے مزید کہا کہ معاشرہ کے زیادہ متاثر ہونے والے طبقات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کیلئے کاوشیں کی جائیں گی اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے والے منصوبوں کے علاقوں میں وسائل کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ نجی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کیپٹل مارکیٹ کے فروغ کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات کی گئی تھیں جو غیر موئثر ثابت ہوئیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے نئے پالیسی بورڈ کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی کے فروغ اور اس کو ایک مؤثر ادارہ بنانے کیلئے اس کی قیادت بھی تبدیل کی ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ تمام اقتصادی مسائل کا حل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے حال ہی میں الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز (ای ایم آئیز) کے قوانین متعارف کرائے ہیں جو ڈیجیٹل ادائیگیوں میں آسانیوں اور بہتر اقتصادی نظام کی تشکیل میں مدد فراہم کریں گے جس سے معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی بحالی کے منصوبے جلد ہی وزیراعظم کو پیش کر دیئے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی گئی تو یہ پبلک آفس ہولڈرز پر لاگو نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کو اقتصادی پالیسیوں کے ساتھ جوڑا گیا اور ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے اور گذشتہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری سال کے دوران ڈالر کی قیمت 127 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کے فی الفور اقدامات اور بہتر فیصلوں سے توانائی کے شعبہ کے نقصانات کم ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 2 ماہ کے دوران نقصانات 16.5 فیصد تک کم ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ حکومت کے نقصانات کی شرح 18.5 فیصد تھی۔ اسد عمر نے کہا کہ انتظامی اور تکنیکی فیصلوں کے نتیجہ میں نظام کو مجموعی طور پر بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے بجلی کے نظام کو مارکیٹ سسٹم پر ڈی سنٹرل لائز کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اپریل 2019ء کے بعد قومی برآمدات میں اضافہ کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران دو ہندسوں میں رہا جبکہ موجودہ حکومت کے پہلے سات ماہ کے دوران اس کو ایک ہندسہ تک محدود رکھا گیا۔ اسد عمر نے کہا کہ حکومت شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کے لئے ابتدائی طور پر معیشت کو دستاویزی شکل دینے پر توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن سے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں اور ٹیکس کے دائرہ کار میں اضافہ پر موثر طور پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اصلاحات پر عملدرآمد کا کام ایک مسلسل اور نسبتاً آہستہ عمل ہے تاہم اس کے ثمرات وسط اور طویل المدت کی بنیاد پر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 30 سال کے دوران آئی ایم ایف کے 12 پروگراموں سے استفادہ کیا جو صرف ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال کو بہتر رکھنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ وفاقی وزیر نے تسلیم کیا کہ حکومت کو بجٹ اور حسابات جاریہ کے خسارہ کا سامنا ہے جو اس کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ حسابات جاریہ کے خسارہ میں نمایاں کمی ہوئی ہے جو 2 ارب ڈالر فی مہینہ سے زائد ہے، اس کے علاوہ صرف برآمدات میں اضافہ سے ہی خسارے میں کمی لائی جا سکتی ہے جو اس کا واحد ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت تعمیرات، ایس ایم ای، مینوفیکچرنگ، سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں کی ترقی کے ذریعے عوام کے لئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لئے پرعزم ہے۔