لاہور( این این آئی) مسلم لیگ (ن) کے قائد وسابق وزیر اعظم محمد نواز شریف سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ان کی رہائشگاہ جاتی امراءمیں ملاقات کر کے ان کی خیریت دریافت کی اور ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ،
دونوں رہنماﺅں نے ملک میں جاری مہنگائی کی لہر اور معیشت کی ابتری پر تشویش کا اظہار اور اس صورتحال سے باہر نکلنے کے حوالے سے بھی گفتگو کی ، دونوں رہنماﺅں نے ملک کے موجودہ حالات پر دیگر اپوزیشن جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے اعلیٰ سطحی رابطوں پر بھی اتفاق کیا ۔
تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کےلئے ان کی رہائشگاہ جاتی امراءرائے ونڈ پہنچے اور دونوںرہنماﺅں نے تقریباً دو گھنٹے اکٹھے گزارے ۔مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف سے ان کی صحت کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کی جبکہ دونوں رہنماﺅں کے درمیان ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی ۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کو پیپلز پارٹی کی قیادت سے ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کے احوال سے بھی آگاہ کیا ۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں نواز شریف کی صحت پرسی کےلئے ان کی رہائشگاہ پر آیا تھا اور یہ ملاقات اسی ایجنڈے تک محدود تھی ۔
انہوں نے کہا کہ جب دو سیاسی لوگ ملتے ہیں تو سیاسی امور پر بھی بات چیت ہوتی ہے ۔ ملک میں پھیلی بد ترین مہنگائی جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور معیشت جو ہچکولے کھا رہی ہے اس پر مشترکہ تشویش کا اظہار کیا گیا او رہم نے سوچ بچا ر کی ہے کہ ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے اور صورتحال پرکیسے قابو پایا جا سکتا ہے تاکہ ہم ملک کے مستقبل کو محفوظ کر سکیں اور اس اعتبار سے ہم ایک پیج پر ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ جب ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے تو ہم سب ایک پیج پر تھے کہ یہ دھاندلی کے انتخابات ہیں ،حکومت کی اکثریت جعلی ہے اور وزیرا عظم بھی جعلی ،خلائی او رنصب کردہ ہے ۔
ایسے لوگ جو نظریے کو نہیں جانتے ،جن کی ملک کے حالات سے واقفیت نہیں اورجنہیں معیشت کے بارے میںعلم نہیں اگرملک کو ان کے حوالے کر دیا جائے تو پھر ملک کس طرح آگے جائے گا او ر تمام اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میری آج یا کل آصف زرداری سے بھی ملاقات ہو گی اور اس میں اس پر بات ہو گی ۔ رابطوں کا جو سلسلہ ہے اس میں ہم آہنگی ہونی چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام دس ملین مارچ مکمل کر چکی ہے اور اس میں عوام کا سمندر شریک ہوتا تھا ۔ انہوں نے میڈیا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی ایونٹ میں تاحد نگاہ انسانوں کا سمندر ہو اور اسے نظر انداز کر دیا جائے تو میڈیا بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ لے ،کیا عوا م میں اس کا اعتماد ختم نہیں ہوگا ، جب کوئی اس طرح کی تحریک چل رہی ہو تو اسے قومی موومنٹ کی نظر سے دیکھنا چاہیے ۔
ہمارے ملین مارچ میں دوسری جماعتوں کے ورکرز بھی شامل تھے اور اس کا مطلب ہے کہ تمام پارٹیاں ہم سے یکجہتی رکھتی ہیں اسی لئے ان کے کارکن آئے ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی سوچ میں بھی کوئی فرق نہیں لیکن یہ طے ہونا ہے کہ کیا حکمت عملی ہونی چاہیے اور ہر جماعت نے اپنی فورم پر فیصلے کرنے ہیں ۔ انہوںنے نواز شریف کی جانب سے اس حوالے سے کسی فیصلے کے سوال کے جواب میں کہا کہ میاں صاحب یا ان کی جماعت کے لئے ایسا دن نہیں تھاکہ کوئی فیصلہ کریں کیونکہ پارٹی فورم پر حکمت عملی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور میں اس بات کی حمایت کروں گا کہ تمام جماعتوں میں ان معاملات پر مکمل ہم آہنگی ہے ۔
انہوں نے نیب کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک انتقام کا ادارہ ہے جسے استعمال کیا جارہا ہے ۔ نیب سے احتساب اور انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی او رباقی پارٹیاں بھی یہی سوچتی ہیں ۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ نیب کے حوالے سے سخت فیصلے کرنے چاہئیں ۔
انہوں نے اس سوال کہ موجودہ حکومت کتنا عرصہ چلے گی کے جواب میں کہا کہ ملک میں عمران خان کی حکومت نہیں ہے ، ان کے پیچھے موجود قوتیں اپنے ادارے کی طاقت کے بل بوتے پر کب تک انہیں کھینچتی ہیں اسی پر انحصار ہے ۔ انہوں نے آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات کرانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی ملاقات میں کیا رکاوٹ ہے ؟۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کی سیاست ختم ہونے کے سوال پر کہا کہ یہ گھسا پٹا سوال ہے ، وہ ہماری فکر نہ کریں بلکہ اپنے خاتمے کا سوچیں ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا ملاقات کے دوران بہت اچھا موڈ تھا اور میں بھی اطمینان سے اٹھا ہوں ۔