جراثیم

دواؤں کو بے اثر کرنے والے جراثیم لاکھوں اموات کی وجہ بن سکتے ہیں

جنیوا: پوری دنیا میں بیکٹیریا اور جراثیم ہماری دواؤں سے مزاحمت کرکے انہیں بے اثر بنارہے ہیں۔ اگر یہی کیفیت برقرار رہی اور ہم نے نئی ادویہ نہیں بنائیں تو سال 2050 کے بعد سے ایک جانب ہرسال 1 کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور مزید کروڑوں افراد غربت اور مفلسی کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔

اس ضمن میں اقوامِ متحدہ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں اینٹی مائیکروبیئل ریسسٹینس (اے ایم آر) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بڑھتا ہوا چیلنج 2030 تک دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کو انتہائی غربت کی جانب دھکیل دے گا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت ہمارے پاس جو ادویہ ہیں وہ کئی امراض کے جراثیم اور بیکٹیریا کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے اوراس کی وجہ سے ہرسال سات لاکھ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں جن میں 2 لاکھ 30 ہزار ٹی بی کے ایسے مریض ہیں جن پر تمام دوائیں ناکارہ ہوچکی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی نائب سیکریٹری جنرل امینہ محمد کہتی ہیں کہ یہ رپورٹ اے ایم آر کو روکنے اور صحت میں ترقی کے ایک سوسالہ تحفظ پر گہرائی میں روشنی ڈالتی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے دواؤں کے خلاف جراثیم کی مزاحمت اور ارتقا کو پوری دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جراثیم اور بیکٹیریا ہماری تمام دواؤں کے حوالے سے کچھ اسطرح سے تبدیل ہورہے ہیں کہ بہت سی عام بیماریوں سے شفا بھی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ آگے چل کر اقوامِ متحدہ نے اپنی رپورٹ میں تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں رپر لوگوں کو بچانے کا کام کریں تاکہ پائیدار مستقبل کی بنیاد رکھی جاسکے۔

لیکن دوائیں بے کار کیوں ہورہی ہیں؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اینٹی بایوٹکس کا بے تحاشہ استعمال کررہے ہیں جس سے دواؤں کی تاثیر ختم ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ بالخصوص غریب ممالک میں صاف پانی، گندے پانی کی نکاسی، دواؤں اور ڈاکٹروں تک عدم رسائی سے بھی اے ایم آر میں شدت پیدا ہورہی ہے۔ ان ممالک میں کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا مناسب بندوبست نہیں اور نہ ہی فوڈ سیفٹی پر زور دیا جارہا ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں انسانوں اور جانوروں کو ’انتہائی ضرورت پر ہی‘ اینٹی بایوٹکس دی جائیں جبکہ زراعت اور پولٹری فارمز میں ان کا استعمال بتدریج کم کرتے کرتے ختم کردیا جائے۔

دنیا بھر کے ماہرین نے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کی تائید کرتے ہوئےدیگر تجاویز کو سراہا ہے۔ لیکن ماہرین نے کہا ہے کہ غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک میں انقلابی اقدامات اپنانے، تحقیق اور عالمی مدد کی ضرورت بھی ہے۔