درخواستیں واپس

حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواستیں واپس لینے کی بناءپر خارج ہوئی

لاہور(این این آئی)لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی جانب سے عبوری ضمانت کی درخواستیں واپس لینے کی بناءپر خارج کر دیں جس کے بعد نیب نے حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیسز میں باضابطہ گرفتار کر کے نیب لاہور کے ہیڈکوارٹر منتقل کر دیا ،حمزہ شہباز کو جسمانی ریمانڈ کے حصول کےلئے بد ھ کے روز احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا ، مسلم لیگ (ن) کی کال پر بڑی تعداد میں رہنمااور کارکن حمزہ شہبازسے اظہا ر یکجہتی کےلئے لاہور ہائیکورٹ پہنچے ، اس موقع پر پولیس اور کارکنوں کے درمیان تلخ کلامی اور دھکم پیل بھی ہوئی ، کارکنوں کی جانب سے حمزہ شہباز کے حق میں اور حکومت اور نیب کے خلاف نعرے لگائے جاتے رہے ۔

تفصیلات کے مطابق لاہورہائیکورٹ کے جسٹس مظاہرعلی اکبر کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے حمزہ شہباز کی جانب سے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائداثاثہ جات کے کیسز میں عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی ۔حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوئے جبکہ سپیشل پراسیکیوٹر نیب جہانزیب بھروانہ بھی عدالت میں موجود تھے۔نیب کی جانب سے حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت کی درخواست منسوخ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ حمزہ شہباز کی رمضان شوگر ملز میں درخواست ضمانت ناقابل سماعت ہے، جرمانہ عائد کرکے مسترد کی جائے۔حمزہ شہباز کے نیب پر الزامات جھوٹے، بے بنیاد، مبہم اور غیر واضح ہیں، حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز میں انکوائری قانون کے مطابق اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔حمزہ شہباز کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے گرفتار کرنے سے10روزپہلے آگاہی کاحکم دیا تھالیکن عدالت کے حکم کے باوجود چھاپے مارے گئے، عدالت ڈی جی نیب کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرے۔انہوں نے مزید موقف اپنایا کہ تفتیش شروع کرنے کی منظوری سے متعلق دستاویزات نہیں دی گئیں، دستاویزات کے حصول کیلئے عدالت میں درخواست دائرکی جس پر فاضل عدالت نے کہا ابھی وہ مرحلہ نہیں آیاجہاں آپ ایسی درخواست دائرکرسکیں۔حمزہ شہباز کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا یہ مرحلہ ابھی ہے لہٰذا پہلے میر ا موقف سن لیں جس پر عدالت کا کہنا تھا آپ سے جوسوال کیاجائے اس کا جواب دیں، جودلائل آپ دے رہے ہیں ، وہ ٹرائل کورٹ سے متعلق ہیں، آپ عبوری ضمانت میں پیش ہوئے ہیں اس پر دلائل دیں۔

وکیل نے موقف اپنایا کہ دستاویزات کے حصول کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، اگر نیب کے سیکشن 18 سی پر عمل نہیں ہوا تو تمام عمل غیر قانونی ہو گا۔عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ جو درخواست دائر کی گئی ہے کیا وہ نیب آرڈیننس کے تحت اس مرحلے پر دائر کی جاسکتی، وارنٹ گرفتاری تو چیئرمین نیب کی اجازت سے جاری ہوئے ہیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ہم سے سوال نہ کریں بلکہ ہمارے سوالات کا جواب دیں،گرفتاری کیلئے کس قانونی چیز کی ضرورت ہے؟ ۔دوران سماعت عدالت نے غیرمتعلقہ افرادکوکمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کیس میں ابھی وقت لگناہے غیرمتعلقہ افراد باہر چلے جائیں۔حمزہ شہباز کے وکیل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انکوائری اور تفتیش شروع ہو چکی ہے ، انکوائری اورتفتیش چیئرمین کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ استدعا ہے کہ عدالت ہمیںدستاویزات فراہم کرنے کا حکم دے جس پر عدالت کا کہنا تھا ابھی موقع نہیں آیا کہ معاملے پر بحث کی جائے اور دستاویزات فراہمی کے حوالے سے حمزہ شہباز کی درخواست مسترد کردی گئی۔دوران سماعت نیب کی جانب ے موقف اپنایا گیا کہ شہبازشریف فیملی کے1999 میں اثاثوں کی مالیت50 ملین تھی، اثاثوں میں380ملین کااضافہ ہوا جوآمدن سے مطابقت نہیں رکھتا۔شہباز شریف، سلمان شہباز ،حمزہ شہباز اور نصرت شہباز منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں ۔لاہور کے مختلف بنکوں سے حمزہ شہباز نے 500 ملین کی ٹرانزیکشنز کیں، حمزہ شہباز شریف کو 7 نوٹسز بھیجے گئے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے، مشکوک اکاﺅنٹ کا انکشاف ہوا اور حمزہ نے منی لانڈرنگ بھی کی،پاکستان سے دو کمپنیاں ملوث ہیں جبکہ بیرون ملک بھی کمپنیاں ملوث ہیں۔عدالت نے نیب کے وکیل کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ صرف حمزہ شہباز کا کیس ہے، صرف حمزہ شہباز کے بارے میں بات کی جائے، آپ عدالت کو یہ بتائیں کہ کتنی کمپنیاں رقوم منتقل کرنے میں ملوث ہیں،کیا ملزم تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا؟ ملزم کتنی بار پیش ہوا، شہباز نے بیرون ملک ترسیلات پر کیا جواب دیا۔ کیا اس پر حمزہ شہباز نے کوئی جواب دیا کہ باہر کیا کاروبار تھا؟ نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ حمزہ شہباز 4 بار نیب پیش ہوئے ، بیرون ملک ترسیلات کا کوئی جواب نہیں دیا، کہتے تھے جواب عدالت میں دیں گے، 181ملین روپے وصول ہوئے، جعلی لوگوں کے نام سے بیرون ملک سے ترسیلات منگوائی گئیں، 40افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا، حمزہ شہباز نے بیرون ملک کاروبار سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔ نیب نے بتایا حمزہ شہباز نے 42کروڑ کے اثاثے ظاہر کیے جس میں 18 کروڑ باہر سے آئے، جن لوگوں کے نام سے آئے وہ ان سے لا تعلقی ظاہرکرتے ہیں۔

حمزہ شہبازنے آج تک نہیں بتایا باہر سے کس مدمیں رقوم آتی ہیں، جعلی ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے رقوم بیرون ممالک سے منگوائی گئیں۔وکیل حمزہ شہباز نے کہا مجھے دستاویزات ہی نہیں دے رہے بحث کیسے کروں گا ۔ ایف ایم یوکی رپورٹ بھی نہیں دی جارہی۔جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے کہا کہ یہ معاملہ ٹرائل کورٹ کا ہے وہاں جائیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ سو فیصد قانون کے مطابق فیصلہ ہوگا، باہر کیا باتیں ہو رہی ہے ہمیں کسی سے غرض نہیں، ہم صرف اللہ کو جواب دہ ہیں۔ عدالت نے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع کی تو حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ عدالت ہمیں سنناہی نہیں چاہتی توکیاکریں جس کے بعد حمزہ شہبازکے وکلاءنے عبوری ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں۔عدالت نے درخواستیںواپس لینے پر خارج کر دیں اور عبوری ضمانت مسترد کردی گئی۔کمرہ عدالت میں ہی حمزہ شہباز نے اپنے وکلاءاور پارٹی رہنماﺅں سے کچھ دیر مشاورت کی ۔ صورتحال کا علم ہونے پر احاطہ عدالت اور باہر موجود کارکنوں نے حمزہ شہباز کے حق میں اور حکومت اور نیب کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دئیے ۔ اس موقع پر کارکن ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے ، گو نیازی گو ، نیب نیاز ی گٹھ جوڑ نا منظور نا منظور کے نعرے لگاتے رہے ۔ حمزہ شہباز کی پیشی کے موقع پر پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے اور غیر متعلقہ افراد کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔حمزہ شہباز کے کمرہ عدالت سے باہر آتے ہی نیب کی ٹیم نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا اور بعد ازاں پولیس کی سخت سکیورٹی میں گاڑی تک لے جایا گیا ۔

اس دوران کارکن پر جوش انداز میں نعرے بازی کرتے رہے جبکہ حمزہ شہباز ہاتھ ہلا کر نعروں کاجواب دیتے رہے ۔ اس موقع پر لیگی کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی جس سے ماحول کشیدہ ہو گیا ۔حمزہ شہباز کی گرفتاری پر لاہور ہائیکورٹ کے باہر جی پی او چوک میں موجود لیگی کارکنان نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام میں خلل آیا ۔نیب کی ٹیم حمزہ شہباز کو گاڑی میں بٹھا کر سخت سکیورٹی میں لے کر نیب لاہور کے ہیڈ کوارٹر پہنچی ۔قبل ازیں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے حمزہ شہباز نے کہا کہ میں نے پاکستانی قوم کومخاطب کرکے کہا تھا کہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی، میں نے نیب کو چیلنج کیا تھا کرپشن کی ایک پائی کا ثبوت لے آئیں تو سیاست چھوڑ دوں گا۔انہوں نے کہا کہ فردوس عاشق اعوان ایک روزپہلے زرداری صاحب کی گرفتاری کا بتا دیتی ہیں، میرے بارے میں چیئرمین نیب فرما چکے ہیں کہ حمزہ کوگرفتار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ جیلیں نئی نہیں ہیں،جس کا دامن صاف ہوتا ہے اللہ اسے ہمت دیتا ہے،نیب چیئرمین میرے بارے میں اپنا بغض اپنا آرٹیکل میں دیتے ہیں ۔