اسلام آباد (این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیاہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی نامزدگی پر براہ راست ملاقات اور رازداری پر مبنی بامعنی گفتگو آئینی تقاضا ہے۔ منگل کو شہبازشریف نے الیکشن کمیشن کی سندھ اور بلوچستان سے نشستوں کے لئے اپنے چھ نام بھی وزیراعظم کو بھجوادئیے ،سندھ سے سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن خالد جاوید، سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس (ر) عبدالرسول میمن اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے نورالحق قریشی کے نام شامل ہیں ،بلوچستان سے سابق ایڈووکیٹ جنرلز صلاح الدین مینگل اور محمد روف عطاءکے علاوہ سینئر ایڈووکیٹ شاہ محمود جتوئی کے نام تجویز کئے گئے ہیں ۔ شہباز شریف نے خط میں کہاکہ نامزد کردہ افراد کی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے رازداری سے بالمشافہ اور براہ راست بات چیت مناسب آئینی طریقہ کار ہے۔
شہباز شریف نے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں کہاکہ بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ آپ نے ہمارے نامزد کردہ افراد کے بارے میںبراہ راست جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کئے۔شہباز شریف نے خط میں کہا کہ ہمارے نامزد کردہ ایک فرد کا نام 11مارچ 2019کو آپ کی جانب سے وزیر خارجہ کے پہلے بھجوائے گئے خط میں بھی موجود ہے۔شہباز شریف نے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں اعتراض میں کیا کہ اب آپ کے خط میں اسی نامزد کردہ شخصیت کو ”نااہل“ قرار دیاگیا ہے،آپ کے نامزد کردہ افراد پر بھی اسی نوعیت کے الزام باآسانی لگائے جاسکتے ہیں لیکن ہم کسی کی پگڑی اچھالنے پر یقین نہیں رکھتے۔شہبازشریف نے کہاکہ ایسی تہمت بازی سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ اس طرح کے رویہ سے افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی،آپ کے نامزد کردہ افراد کے بارے میں ابتدائی پڑتال کرلی ہے، آپ کے فراہم کردہ ’سی ویز‘ مجھے حتمی رائے بنانے میں مدد دیں گے ۔
شہبازشریف نے وزیراعظم کولکھے گئے خط میں اصرارکیا کہ میری دانست میں آئین اور عدالت عظمی کے فیصلوں کی رہنمائی میں ہمیں آگے بڑھنا چاہئے ۔ خط میں کہاگیاکہ دستور اور سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں براہ راست گفتگو کے ذریعے سنجیدہ، بامقصد اور مخلصانہ کوشش سے ہر فرد کی اہلیت جانچی جائے ،قائد حزب اختلاف کے وزیراعظم کو خط میں متعدد عدالتی نظائر اوردستور کی شق 213 دواے کے متعلقہ حصے بھی نقل کئے گئے ہیں ،خط میں کہاگیاکہ آپ کے چھ مئی دوہزارانیس کے خط سے مایوسی ہوئی، سات اپریل کے خط میں میری پیش کردہ معروضات کو نظرانداز کیاگیا۔خط میں موقف اختیار کیا گیاکہ اپنے خط کے حصہ تین میں کہہ چکا ہوں کہ میں اس معاملے میں قانونی تنازعہ مزید بڑھانا نہیں چاہتا، اس لئے ایک بارپھر نکتہ وار جواب دے رہا ہوں۔