یہ بات ہے 1760 کی دہائی کی- لندن کے ایک ڈاکٹر ریورنڈ ایڈورڈ سٹون شام کو اپنی وسیع اراضی میں ندی کے کنارے Willow کے درختوں کی چھاؤں میں ٹہل رہے تھے- لندن کے نواح میں Willow کے درخت جگہ جگہ پائے جاتے ہیں- سستانے کے لیے Willow کے ایک درخت کی چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھے تو بے دھیانی میں اس درخت کی ٹہنی توڑ کر چبانے لگے- لیکن پھر فوراً ہی تھو تھو کرتے اسے تھوک دیا کیونکہ یہ ٹہنی بے انتہا کڑوی اور بے ذائقہ تھی- خیر، ڈاکٹر سٹون اس ٹہنی کو چھوڑ کر دوبارہ ٹہلنے لگے اور یہ بات ان کے ذہن سے محو ہو گئی- رات کو اپنی سٹڈی میں میڈیکل سے متعلق تازہ خبریں پڑھتے ہوئے ان کی نظر سے ایک آرٹیکل گذرا جس میں کونین کی بڑھتی ہوئی قیمت پر ڈاکٹروں نے انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا- ان دنوں کونین کو بخار کم کرنے اور خصوصاً ملیریا کے بخار کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا- چونکہ کونین وہ واحد دوا تھی جو بخار کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی اس لیے اس کی مانگ بہت بڑھ رہی تھی اور دنیا بھر میں اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا-
چونکہ کونین انتہائی کڑوی ہوتی ہے غالباً اس لیے ڈاکٹر سٹون کا دھیان Willow کی اس ٹہنی کی طرف بھٹک گیا جسے انہوں نے چبا کر تھوک دیا تھا- اچانک انہیں خیال آیا کہ اگر Willow کی ٹہنیاں اس قدر کڑوی ہوتی ہیں تو عین ممکن ہے کہ اس میں بھی بخار کو کم کرنے والے کچھ کیمیکلز ہوں- چنانچہ انہوں نے Willow کی ٹہنیوں کو کاٹ کر سکھایا، پھر انہیں پیس کر سفوف بنایا اور اپنے کلینک پر آنے والے مریضوں کو پڑیوں کی شکل میں دیا- ان کی توقع کے مطابق ان پڑیوں میں موجود پاؤڈر کو کھانے سے ان کے مریضوں کا بخار ٹوٹ گیا- (اس زمانے میں ڈبل بلائنڈ پروٹوکول ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا جس میں مریضوں میں سے کچھ کو دوا اور کچھ کو پلاسیبو دی جاتی ہے)
یہ اسپرین کا پہلا کلینیکل ٹرائل تھا اگرچہ اس وقت ڈاکٹر سٹون کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ کتنی اہم دوا دریافت کر چکے ہیں- ڈاکٹر سٹون نے اپنی دریافت کو ایک پیپر کی شکل میں رائل سوسائٹی آف لنڈن کے جریدے میں چھپوا دیا- تاہم اس دریافت کی طرف کسی نے خاص توجہ نہیں دی اور کئی دہائیوں تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی- انیسویں صدی کے آغاز میں نپولین کی فوج نے برطانیہ کی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس وجہ سے کونین کی پیداوار میں شدید کمی واقع ہو رہی تھی کیونکہ کونین بنانے کے لیے درختوں کی لکڑی دوسرے ممالک سے آتی تھی جس میں سے salicylic acid نکالا جاتا تھا جس سے کونین بنائی جاتی تھی- 1828 میں ایک جرمن پروفیسر نے Willow کے درخت کی لکڑی کو پراسیس کر کے اس میں سے ایک پیلے رنگ کا مادہ نکالا جو بخار ختم کرنے کے علاوہ جوڑوں کے درد کو بھی کم کر دیتا تھا- تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ مادہ بھی salicylic acid ہی تھا جو Willow کے درخت میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے- انیسویں صدی کے خاتمے تک تمام یورپ اور بہت سے دوسرے ممالک میں Willow کے درخت سے بنائی گئی اس دوا کا استعمال وسیع پیمانے پر ہو رہا تھا
اسی زمانے میں جرمنی کی ایک کمپنی Bayer نے (جو کہ رنگ بنانے کا بزنس کرتی تھی اور دنیا بھر میں اس کا نام پہچانا جاتا تھا) دوا سازی کے بزنس میں آنے کا پروگرام بنایا- اس وقت تک ڈاکٹروں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ اگرچہ salicylic acidدرد اور بخار کو کم کرتا ہے لیکن یہ معدے میں شدید تکلیف بھی پیدا کرتا ہے اور مریضوں کے معدے میں السر پیدا کرنے کا باعث بھی بنتا ہے- رنگوں کے بزنس میں ہونے کی وجہ سے Bayer کی انتظامیہ کے پاس دنیا کے بہترین کیمسٹ موجود تھے- چنانچہ ان کیمسٹس کو اس بات پر مامور کیا گیا کہ salicylic acid کی ایسی قسم دریافت کریں جو درد اور بخار کو تو کم کرے لیکن معدے پر کوئی برا اثر نہ ڈالے- بہت سے تجربات کے بعد ان کیمسٹس نے ایک پراسیس ایجاد کیا جس کی بدولت salicylic acid کے فارمولے میں تبدیلی ممکن ہو گئی اور یوں ایک نئی دوا ایجاد ہو گئی جس کا کیمیائی نام acetylsalicylic acid تھا اور جو درد اور بخار کر کم کرتی تھی لیکن معدے کو زیادہ تکلیف نہیں پہنچاتی تھی- اس نئی دوا کا تجارتی نام (brand name) اسپرین تجویز کیا گیا تاکہ اس دوا کی دوسری کمپنیوں کے salicylic acid سے الگ پہچان بنائی جا سکے-
اور یوں دنیا کی مشہور ترین اور کامیاب ترین دوا اسپرین مارکیٹ میں آئی- بیسویں صدی کے آغاز تک اسپرین دنیا کی مشہور دوا بن چکی تھی جس کی مانگ ہر ملک میں بڑھ رہی تھی- دنیا بھر میں ڈاکٹروں نے نہ صرف اسے بخار اور درد کے علاج کے لیے استعمال کیا بلکہ اس کے نت نئے فوائد بھی دریافت کیے- یہ دوا اتنی مقبول ہوئی اور اتنی کامیاب ثابت ہوئی کہ 1915 میں حکومت نے اسے بغیر ڈاکٹر کی تشخیص کے بیچنے کی اجازت دے دی تاکہ عوام معمولی بخار اور درد کی صورت میں ڈاکٹر سے نسخہ لیے بغیر یہ دوا خرید سکیں- اس کے علاوہ اسپرین کا ٹریڈ مارک ختم کر دیا گیا یعنی اسپرین کا نام اب صرف Bayer کی ملکیت نہیں رہا بلکہ دنیا کی کوئی بھی کمپنی اسپرین بنا کر بیچ سکتی تھی- اس کے جواب میں Bayer نے اپنے پراڈکٹ کا نام ڈسپرین کر دیا اور بعد میں اسے پیناڈول کے نام سے بھی مارکیٹ کرنے لگی-
تاہم بیسویں صدی کے وسط تک بھی ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ دوا کام کیسے کرتی ہے- یہ عقدہ 1970 کی دہائی میں کھلا جب ہمیں کیمسٹری اور بیالوجی کہ بہتر سمجھ ملی اور نئی ٹیکنالوجی سے دواؤں پر نئی تحقیق ممکن ہوئی- اس نئی تحقیق سے نہ صرف ہمیں اس پراسیس کی سمجھ آئی جس سے اسپرین درد اور بخار کو کم کرتی ہے بلکہ یہ عقدہ بھی کھلا کہ اسپرین خون کو جمنے سے بھی روکتی ہے یعنی خون کے لوتھڑے نہیں بننے دیتی- گویا اسپرین خون کو مسلسل پتلا رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے- دل کی بیماری اور سٹروک کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جسم میں کہیں خون کے لوتھڑے بن جاتے ہیں جو دوران خون کے ساتھ دل کی رگوں میں جا کر دل کے مسلز کو خون کی سپلائی روک دیتے ہیں جس سے دل کے مسلز کام کرنا بند کر دیتے ہیں اور مرنے لگتے ہیں- اسے ہم دل کا دورہ کہتے ہیں- اگر یہی لوتھڑے دماغ کی نسوں میں جا پہنچیں تو یہ دماغ کو خون کی سپلائی روک دیتے ہیں- اس صورت میں دماغ کا وہ حصہ مرنے لگتا ہے جہاں خون کی سپلائی منقطع ہو چکی ہوتی ہے- اسے ہم سٹروک کہتے ہیں- گویا اسپرین کے روزانہ استعمال سے دل کے دورے اور سٹروک کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے- دل کے دورے اور سٹروک سے بچنے کے لیے ڈاکٹرز روز کھانے کے لیے اسپرین کی بہت کم ڈوز تجویز کرتے ہیں جسے آج کل بے بی اسپرین کہا جاتا ہے- بے بی اسپرین میں صرف 81 ملی گرام اسپرین ہوتی ہے-
جدید ترین ریسرچ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسپرین صرف دل کے دورے اور سٹروک سے ہی نہیں بچاتی بلکہ بہت سی قسم کے کینسرز کے خلاف بھی مدافعت فراہم کرتی ہے- خصوصاً اسپرین کے روزانہ استعمال سے پروسٹیٹ، بڑی آنت، لبلبہ اور پھیپھڑوں کے کینسر کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے- چنانچہ اس بات میں کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہیے کہ اسپرین کو آج کل ونڈر ڈرگ یعنی حیرت انگیز دوا کہا جانے لگا ہے- اس قدر فائدے پہنچانے والی دوا انتہائی سستی بھی ہے کیونکہ اسپرین جن مالیکیولز سے بنتی ہے وہ صرف Willow کے درخت میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ ہزاروں قسم کے درختوں اور پودوں میں پائے جاتے ہیں- حیرت کی بات یہ ہے کہ درختوں اور پودوں میں بھی یہ مالیکیول بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرتے ہیں- گویا جو دوائیں انسان نے صرف پچھلے دو سو سال میں دریافت کی ہیں، ارتقاء کی بدولت وہ دوائیں درختوں اور پودوں میں کروڑوں سالوں سے بیماریوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں-
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ انسان کو دو سو سال پہلے ہی Willow کے درخت میں موجود اس حیرت انگیز کیمیکل کا علم ہوا ہے- آج سے چار ہزار سال پہلے بابل کی قدیم تہذیب میں بھی بیماریوں کے علاج کے لیے Willow کی ٹہنیوں کو چبانے کی تجویز دی جاتی تھی- قدیم عراق کے علاوہ چین اور یونان کے علاقوں میں بھی Willow کی ٹہنیوں کو بہت سی دواؤں میں استعمال کیا جاتا تھا- ان دواؤں سے بخار، سر درد، جسم کے درد اور جوڑوں کے درد کا علاج کیا جاتا تھا- یونانی حکیم بقراط (جنہیں موجودہ میڈیکل سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے) نے بھی بخار اور درد سے نجات کے لیے Willow کی ٹہنیوں کو چبانا تجویز کیا ہے
چنانچہ آج کا کڑوا سچ یہ ہے کہ Willow کی کڑوی ٹہنیوں نے نہ صرف کروڑوں لوگوں کو درد سے آرام دیا ہے بلکہ کئی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ بھی دیا ہے- Bayer کمپنی جو کہ آج سے دو سو سال پہلے صرف رنگ بنانے کا بزنس کرتی تھی آج دنیا کی چند گنی چنی ڈرگ کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے-
Load/Hide Comments