لاہور(لاہور نامہ) وقت کی دھارا کسی صورت نہیں رکتی،ہر پل آگے بڑھتی چلی جاتی ہے،کسی رکاوٹ کو نہیں مانتی ۔
اسی طرح آرٹ کی کلاں بھی خاموش نہیں رہتی،یہ فضاء کو اپنے کو اپنے رنگوں سے خوشبو بخشتی ہے.
اس کی مثال الحمرا آرٹ میوزیم کے آویزاں وہ فن پارے جو جتنے قدیم ہیں اتنے ہی نادر ،نایاب و قیمتی اور حالا ت کا پتہ دیتے ہیں.
کوویڈ 19کے گرد’ ان پر پردہ نہیں ڈال پائی ،ثمن رائے جو کہ آرٹ کی دلدادہ ہیں،نے میوزیم کی راہ کو عوام کے لئے مزید آسان کر دیا ہے،یہ جگہ پاکستان بھر میں اپنی ثانی نہیں رکھتی .
یہاں ان مصوروں کا کام موجود ہے جو دنیا کیلئے رول ماڈل ہیں۔پاکستانی آرٹ لور ہیں،کورونا ان کے دل سے فن کی قدر کم نہیں کر سکتا،بلکہ اس دور میںبھی آرٹ نے اپنی راہ خود بنائی ہے،نئے ڈھنگ اختیار کئے ہیں.
اب یہ بیش بہا قیمتی فن پارے ورچوئل ٹور کی شکل میں الحمرا آرٹس کونسل کی ویب سائٹ پر موجود ہیں،آرٹ کے اظہار کی یہ نئی شکل وسیع پیمانے پر اسکے فروغ کا با عث بنی ہے۔
آرٹ کے فن پارے کسی بھی قوم کی اعلیٰ اقدارکے آئینہ دار ہوتے ہیں جس سے اس قوم کی ہزار ہاسالہ تہذیب و تمدن ،ثقافت اور معاشرت بخوبی جھلکتی ہیں۔
رسوم و رواج ،سماجی ومعاشرتی رویوں کا حال جان سکتے ہیں۔
یعنی الحمراء آرٹ میوزیم ہماری نئی نسل کو اپنی عظمت رفتہ سے شناسا کرنے کے قابل قدار اورکامیاب کو ششیں کر رہا ہے۔الحمراء کلچرل کمپلیکس،لاہور آرٹس کونسل الحمراء کا ایک ذیلی ادارہ ہے جہاں یہ الحمراء آرٹ میوزیم کی شاندار عمارت موجودہے۔
الحمراء کلچرل کمپلیکس میں 1996ء میں الحمراء پر مانیٹ آرٹ گیلری کا وجود عمل میں لایا گیا ۔2017ء میں اس آرٹ گیلری کی تزوئین وآرائش کی گئی اور اسے الحمراء آرٹ میوزیم کا نیا نام دیا گیا۔
الحمراء آرٹ میوزیم پاکستان میں ایسا واحد میوزیم ہے جہاں پر صرف آرٹسٹوں کے بنائے ہوئے فن پارے ہی رکھے گئے ہیں ان مصوروں میں عبد الرحمن چغتائی،استاد اللہ بخش ،صادقین،شاکرعلی، ایس صفدر،حنیف رامے،شمزا ،احمد پرویز،کولن ڈیوڈ ،اسلم کمال، جمی انجینئر،میری کترینا،کامل خان ممتاز،انا مولیکا احمد،سعید اختر،زبیدہ آغا،خالد اقبال جیسے عالمی شہرت یافتہ نام شامل ہیں۔
حال ہی میں ایگزیکٹوڈائریکٹر الحمراء آرٹس کونسل ثمن رائے نے اس میوزیم کے ورچوئل ٹور کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ سٹوڈنٹس کو اس میوزیم میں رکھے گئے فن پاروں کی مدد سے اپنے آئیڈیل کے انتخاب میں آسانی ہو رہی ہے ،وہ اپنا وقت ضائع کئے بغیر ورچوئل ٹور کی مدد سے یہاں آویزاں کام کو دیکھ کراپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں گے.
الحمراء آرٹ میوزیم کی بدولت فائن آرٹ کے طلبہ وطالبات کواپنے تھیسز کے موضوعات کے انتخاب میں بھی آسانی ہوگی۔ عام دنو ں میں الحمراء آرٹ میوزیم ہر خاص و عام کے لئے دفتری اوقات کار میں کھلا رہتا ہے،سکالرز،محقق ،سیاح ،طالب علم اور مختلف بین الاقومی وفود بھی اس میوزیم کو دیکھنے کیلئے آتے ہیں.
الحمراء آرٹ میوزیم اس حوالے سے بھی اپنے اندر ایک خاص دلچسپی کا پہلو سموئے ہوئے ہے کہ اس کی عمارت ایک منفرد طرز پر تعمیر کی گئی ہے لہذا شعبہ تعمیرات کے طالب علم اس میوزیم کی عمارت کا مطالعہ کرنے کیلئے بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں،اس الحمراء آرٹ میوزیم کی عمارت میں فن پاروں اوردیکھنے والوں کے درمیان موثر ابلاغ میں سورج کی روشنی کو بھی عمل دخل حاصل ہے ،یہ عنصر یہاں رکھے گئے کام کی افادیت میں اضافہ کا باعث ہے، روشنی کا داخلہ ایسے زاویوں سے عمارت کے اندرونی حصہ پر پڑتا ہے کہ اندر رکھے گئے شاہکار کی صحیح نوعیت کا اندازہ کرنا آسان ہو جاتا ہے
اور پینٹنگ کا اصل نظارہ متاثر نہیں ہونے پاتا۔ اس میوزیم کا کردار مصوری کے شعبے میں ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے ،یہ میوزیم مصوری کی اقدار کی پرورش کررہا ہے،یہاں پر رکھے ہوئے فن پارے دیکھ کر ہمیں اپنے سیاسی،سماجی اور اخلاقی حالات کا بخوبی اندازہ ہو تاہے،ایسا لگتا ہے کہ ہمارے مصور نے اپنی پینٹنگ میں اپنے سماج کو ہمیشہ سنبھالاہے،یعنی سوسائٹی کے سدھارنے میں ہمارے مصور نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے،ہمارا مصور سماج کی خدمت کاآرزو مند رہا ہے، اس شعبہ مصوری کی اہمیت کے پیش نظر الحمراء آرٹس کونسل کے دونوںکمپلیکس میں مصوری کی کلاسز کو آن لائن کر دیا ہے، جہاں طلبہ و طالبات ماہر اساتذہ سے تربیت حاصل کررہے ہیں۔ یہ میوزیم ہمارے مصوری کے شعبے میں اعلیٰ خدمات سرانجام دینے والوں مصوروں کو خراج تحسین پیش کرنے کا ذریعہ بھی ہے،جن کے کام کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے جسے بھرپور طریقے سے نبھایا جارہا ہے۔ اس میوزیم میںآویزاں جو مصوری کے شاہکار ہیں ان میں کئی ایک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خراب ہو چکے تھے اور اپنی اصل شکل میں نہ رہے تھے جسے ان کی اصل شکل میں بحال کرنے کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل کیں گئی اور 2016ء میں ڈنمارک سے ان ماہرین کی ٹیم کو پاکستان بلوایا گیا جنہوں نے اپنی اعلیٰ فراست سے ان فن پاروں کو ان کی اصل حالت میں بحال کیا۔ اگرہم ان فن پاروں کو آج بھی دیکھتیں تو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی تازہ تازہ یہ فن پارے تخلیق کئے گئے ہو اس حوالے سے لاہورآرٹس کونسل کی انتظامیہ بلاشبہ داد کی مستحق ہے جن کی شب وروز اعلیٰ خدمات سے یہ بڑا کام عمل میںلایا گیا مصوری مسلسل جستجو کی ایک داستان ہے،چاہے وہ مصر کے قدیم فنکار ہوں یا یونان کے صنم گریا پاکستانی مصوری کے استادوں نے ان ہیئتوںکو ملا کر زندگی کی نقش کشی کی جوان کے زمانے میںزیر موضوع رہے،پاکستانی مصور نے بھی اپنے اردگرد کے مسئلے کی نشان دہی کو اپنے کام میں جگہ دی ہے تاکہ صاحب اقتدار ان کا سدباب کر سکیں۔ جس طرح برقی طاقت اپنے اندر منفی اور مثبت قوتیں رکھتی ہے اور تضاد اور اتصال کا نتیجہ ایک شعلہ ،ایک روشنی ہوتاہے، اسی طرح سے ہیئتیں اپنے اندر مختلف قوتوں کی حامل ہوتی ہیں اور وہ ایک باشعور فنکار کے ہاتھوں سطح تصویر پر بغل گیر ہونے کی منتظر رہتی ہیں یعنی
4.
حالات سے مصور کی سوچ کی مطابقت ہی اس کا کردار تعین کرتی ہے،مثلا اگرہم اپنے گرد وپیش نظر ڈالیں تو ہمیں ہر اس مسئلے پر مصور کے فن پارے ملیں گے جو ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ہمارے مصور کا یہی کردار قابل تحسین ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر اگرایک نظر ڈالیں تو ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ قوم روز اول ہی سے اتار چڑھا ؤ دیکھتی چلی آرہی ہے مگر ان بد لتے ہوئے حالات کے باوجود یہاں پر ہونے والا تخلیقی عمل کبھی جمود کا شکار نہیں ہوا،خواہ وہ افسانہ ہو، ناول نگاری یا شاعری، اس جہد مسلسل میں مصوری کا عمل بھی پیش رہا ہے۔پاکستانی مصوروں نے ہمیشہ ہی سے نئے تجربات کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں کی۔ اسی رویے کے نتیجے میں ہمیں شاکر علی،ایس صفدر،صادقین،خالد اقبال،سلیمہ ہاشمی،سعیداختر، میاں اعجاز الحسن اور اقبال حسین جیسے قدر آور مصور دکھائی دیتے ہیں۔ان میں ہر کسی کی مصوری میں تخلیقی عمل تو اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہی ہے تو ساتھ ہی ان سب کے انفرادی طرز مصوری کو بھی کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔