اسلام آ باد (لاہورنامہ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے خلاف دائر درخواست نمٹا تے ہوئے پولیس کو اغواکاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کردی.
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان @Matiullahjan919 کے اغوا کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں پولیس کی جانب سے ڈی آئی جی آپریشن وقار الدین سید عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دن دیہاڑے جس طرح صحافی کو اٹھایا گیا، سب ادارے تباہ ہوچکے ہیں؟
کسی کی اتنی ہمت کیسی ہوگئی کہ وہ پولیس کی وردیوں میں آکر بندہ اٹھا لے،
قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تو یہاں کچھ بھی نہیں ہوگا اور ملک میں انتشار پھیلے گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پولیس کی وردی پہنے، پولیس کی گاڑی جیسے اشارے لگائے کون پھرتا رہا؟
اسلام آباد پولیس کہاں تھی؟ دارالحکومت میں ایسے کیسے ہوگیا ؟ عام آدمی کو کیا تاثر جائے گا کہ یہاں پولیس وردی میں لوگ دندناتے پھررہے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کا معاملہ ہے، صحافیوں کے خلاف جرائم کا خاتمہ ہوجانا چاہیے،
کل جو کچھ ہوا اس کیلئے پوری ریاست ذمہ دار ہے، موجودہ حکومت بھی صحافیوں کی آزادی کی بات کرتی ہے، سی سی ٹی وی ویڈیو موجود ہے، یہ پولیس کے ساتھ وفاقی حکومت کیلئے بھی ٹیسٹ کیس ہے،
پولیس ایسےاقدامات کرے کہ مستقبل میں ایسےواقعات نہ ہوں۔ اس موقع پر وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ اس کیس کو نمٹایا نہ جائے،
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے، کارروائی کریں تاکہ آئندہ کوئی ایسا کام کرنے کی ہمت نہ کرے۔