کراچی (لاہورنامہ)معروف مذہبی اسکالرشیعہ عالم دین علامہ سید ضمیر اختر نقوی کو سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں وادی حسین قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
قبل ازیں ان کی نمازجنازہ بعدنماز مغربین امام بارگاہ انچولی میں علامہ خورشید عابد نقوی کی امامت میں ادا کی گئی ،
نمازجنازہ میں مرحوم کے اہل خانہ،عزیزو اقارب، علماء کرام،ذاکرین سمیت مختلف سیاسی سماجی شخصیات، عقیدت مندوں ،مختلف مکاتب فکرکے افراد اورعوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔
علامہ سید ضمیر اختر نقوی اتوارکی صبح دل کے دورے کے باعث 76 برس کی عمرمیں انتقال کر گئے۔
معروف اسکالر علامہ سید ضمیر اختر نقوی کی دینی اورملی خدمات کا ملکی و بین الاقوامی سطح پراعتراف کیا گیا جاتا تھاوہ مشہور عالمِ دین اورخطیب ہونے کے ساتھ 40 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔
علامہ ضمیر اختر نقوی مذہبی درس و تدریس کے ساتھ ساتھ شاعری، مرثیہ نگاری اور اردو ادب کی دیگر اصناف پر عبور رکھتے تھے جس پر ان کی قابلیت و صلاحیت کا اندازہ ان کی کتب کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔
آپ 1944 میں بھارت کے تاریخی شہر لکھن میں سید ظہیر حسن نقوی کے گھر پیدا ہوئے۔
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو اور عربی زبان پر عبور حاصل کیا۔مرحوم نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ علامہ ضمیر اختر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مجالس سید الشہداء میں واقعہ کربلا اپنے مخصوص اورمدلل اندازمیں بیان کرتے تھے۔
محرم الحرام کے دوران بھی انہوں نے عشرہ اولی انچولی سوسائٹی ہی میں پڑھا تھا۔ وہ اہل خانہ کے ساتھ 1967 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور پھر مستقل طور پر کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔
انہوں نے لکھن کے حسین آباد اسکول سے میٹرک پاس کی اور گورنمنٹ جوبلی کالج لکھن سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا۔ گریجویشن کی سند شیعہ کالج لکھن سے حاصل کی۔
وہ میر انیس اکیڈمی کے صدر اور سہ ماہی میگزین القلم کے ایڈیٹر ان چیف تھے۔
علامہ ضمیر اختر نقوی نے شہزادہ قاسم ابن حسن پر 2 جلدوں پر مشتمل سوانح تحریر کی، ان کی تصنیف معراجِ خطابت 5 جلدوں پر مشتمل ہے۔
علامہ ضمیر اختر نقوی کی تصانیف میںعظمتِ صحابہ، عظمتِ ابوطالب، امام اور امت، ظہورِ امام مہدی، احسان اور ایمان، قاتلانِ حسین کا انجام، محسنین اسلام، امہات المعصومین، دس دن اور دس راتیں، علم زندگی ہے، تذکرہ شعرائے لکھن، مرزا دبیر حالاتِ زندگی اور شاعری، اردو ادب پر واقع کربلا کے اثرات، اقبال کا فلسفہ عشق، شعرائے اردو کی ہندی شاعری اور شعرائے مصطفی آباد بھی شامل ہیں۔
علامہ ضمیر اختر نقوی سوشل میڈیا پر بھی بہت مشہور تھے، وہ اپنی تقریریروں، قصے و واقعات بیان کرنے کے حوالے سے منفرد شہرت رکھتے تھے۔
علامہ ضمیر اختر نقوی کو ‘لڈن جعفری’ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور ان کے بیانات کو سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیا جاتا تھا۔
علامہ ضمیر اختر نقوی شاعری بھی کرتے تھے جب کہ انہیں صحافت اور سیاسی حالات سے بھی کافی دلچسپی تھی۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے علامہ ضمیر اختر نقوی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کی ہے۔
وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ،ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی، صوبائی وزراء سید ناصرحسین شاہ،سعید غنی، شہلارضا، وزیراعلی سندھ کے مشیروقارمہدی دیگر نے بھی علامہ ضمیر اختر نقوی کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے.