اسلام آباد (لاہورنامہ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا ہے کہ اگر قانون سازی زور اور دھمکی سے کی جائے گی تو اس کا اور اس طرح کی پارلیمان کا کوئی مستقبل نہیں ہے،
جب ہمارا ووٹ نہیں گنا جائے گا، ہماری آواز نہیں سنی جائے گی.
تو ہم جیسی جماعتوں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ آخر ہم کب تک اس پارلیمان کو ایک ربڑ اسٹیمپ کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں،
جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نہیں تھے، وہ آج ہمارے درمیان ہیں، اس وقت کافر اور غدار کہنے والے آج انہیں شہید ماننے کو تیار ہیں،
ریپ کا شکار خاتون پر سوال اٹھانے والوں کے دفاع میں وزرا سامنے آ جاتے ہیں، زندگی میں ہر کسی سے غلطیاں ہوتی ہیں ،
ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر حملے بھی ہوتے ہیں، میڈیا پر ہماری کردار کشی ہوتی ہے،
ہمارے شہیدوں کی کردار کشی کی جاتی ہے مگر ہم اپنے موقف اور منشور پر قائم ہیں،آج ہمارے سیلاب متاثرین لاوارث ہیں، ان کو سنبھالنے اور معاضہ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
جمعرات کو پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نہیں تھے، وہ آج ہمارے درمیان ہیں،
اس وقت انہیں کافر اور غدار کہنے والے آج انہیں شہید ماننے کو تیار ہیں اور ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی موجود ہیں جو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو کہتے ہیں کہ آپ خاتون ہیں اس لیے آپ وزیر اعظم نہیں بن سکتیں،
جو انہیں کرپٹ تھے وہ آج انہیں شہید مانتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ زندگی میں ہر کسی سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر حملے بھی ہوتے ہیں،
میڈیا پر ہماری کردار کشی ہوتی ہے، ہمارے شہیدوں کی کردار کشی کی جاتی ہے لیکن ہم اپنے موقف اور منشور پر قائم ہیں،
کبھی کبھار ہم کامیاب ہوتے ہیں، کبھی ہم کامیاب نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان ہے کہ ہار جیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن محنت ہمارے سیاسی کارکن نے کی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جو اکا دکا چھوٹی موٹی جمہوریت رہی ہے، جو تھوڑی بہت میڈیا کو آزادی میسر ہے، جو میرے مزدور کا محض کاغذ پر ہی صحیح لیکن قانون تو موجود ہے اور وہ ان قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج پاکستان ایک ایسے وقت سے گزر رہا ہے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم مدینہ کی ریاست میں ہیں تاہم مدینہ کی ریاست کا یہ حال ہے کہ پاکستان کے سب سے مشہور موٹر وے پر ایک عورت کا اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی ریپ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس عورت کو تحفظ دینا جن کی ذمے داری ہے اور جن کی ذمے داری تمام عورتوں کو یہ باور کرانا ہے کہ آپ کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے، وہ ریپ کرنے والے پر نہیں بلکہ متاثرہ خاتون پر سوال اٹھاتے ہیں۔
آج ہمارے سیلاب متاثرین لاوارث ہیں، ان کو سنبھالنے اور معاضہ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
بلاول نے کہا کہ جب ہم اپنے ملک کی اہم ترین قانون سازی کرنے جاتے ہیں تو وہ ہم آزاد ماحول میں نہیں کرتے، آج تک اس قومی اسمبلی میں جو اہم قانون سازی ہوئی ہے.
وہ قانون اور آئین کو پس پشت ڈال کر اور پارلیمان کو بے اختیار کر کے زبردستی سے پاس کیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ دوسرے فریق کو اختلاف رائے کی اجازت اور موقع نہیں دیا جاتا،گزشتہ روز کا مشترکہ اجلاس اس کی مثال ہے جس میں اسپیکر صاحب ووٹ کی دوبارہ گنتی کے مطالبے پر ساتھ نہیں دے رہے تھے، ہمارا حق ہے کہ ہر ووٹ پر وہ ہماری تعداد گنیں۔
ہم نے پارلیمانی اراکین اور قانونی برادری کی رائے سے ججز کا فیصلہ کرنا ہے لیکن اس بات کو انہوں نے ایک خطرے کے طور پر دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک دھمکی کے نتیجے میں 19ویں ترمیم پاس کی گئی اور وہ دھمکی 1973 کا آئین تھا جو ایک اسلامی، وفاقی، پارلیمانی نظام ہے.
جو اس ملک کو جوڑتا ہے لیکن اگر قانون سازی زور اور دھمکی سے کی جائے گی تو اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے.
اور اس پارلیمان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔