انتخابات کالعدم

این اے 75 ڈسکہ کے انتخابات کالعدم قرار ، 18مارچ کو دوبارہ پولنگ کا حکم

اسلام آباد (لاہور نامہ) الیکشن کمیشن آف پاکستا ن نے این اے 75ڈسکہ کے انتخابات کالعدم قرار دیتے ہوئے 18مارچ کو دوبارہ پولنگ کا حکم دیا ہے۔

جمعرات کوچیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے این اے 75 مبینہ انتخابی دھاندلی کیس کی سماعت کی۔ مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کی نمائندگی کرنے والے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جن پولنگ اسٹیشن کے پریزایڈنگ افسران غائب ہوئے وہاں پولنگ کی شرح 86 فیصد تک رہی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں کہ معاملے کی تہہ تک تحقیقات کریں کہ ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کی دوسری مرتبہ تعیناتی کا کون ذمہ دار ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پی ٹی آئی امیدوار کے سب سے بڑے سپورٹر نے کہا تھا کہ یہ ڈنڈے اور سوٹے کا الیکشن ہے، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ گاؤں میں ڈنڈے سوٹے تو ویسے بھی چل جاتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے رکن سندھ نے کہا کہ ویڈیو سے لگتا ہے ڈنڈے سوٹے کا لفظ محاورے کے طور پر بولا گیا تھا۔وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ غیر متنازع تمام 337 پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کو روکا گیا۔

وکیل نے کہا کہ نوشین افتخار نے ریٹرننگ افسر (آر او) کو جو درخواست دی اسے پڑھا جائے، نوشین نے 23 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی جبکہ آر او نے بھی اپنی رپورٹ میں بیس پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تاخیر سے پہنچنے اور صرف 14 پر ری پولنگ کی تجویز دی۔

سماعت میں سلمان اکرم راجا نے متنازع 20 پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کی استدعا کی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہر الیکشن تنازع کا سیاسی اور میڈیا پہلو ہوتا ہے، جرمن فلاسفر نے کہا تھا شکار، جنگ اور الیکشن ہارنے کے بعد جھوٹ بولا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ این اےـ75 کے 360 میں سے 337 پولنگ اسٹیشنز کا کوئی تنازع نہیں، ریٹرننگ افسر نے قیاس آرائیوں کی بنیاد پر دوبارہ پولنگ کی سفارش کی، یہ کہنا درست نہیں کہ نتیجہ تاخیر سے آنے کا مطلب رزلٹ تبدیل ہونا ہے جو پر رکن سندھ نے کہا کہ جس انداز میں تاخیر ہوئی اس سے نتائج میں تبدیلی کا گمان ہو سکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پریزائڈنگ افسران کے آر او آفس پہنچنے کا کوئی وقت مقرر نہیں، صبح سے شام تک موبائل کی بیٹریاں ختم ہوجاتی ہیں جس پر رکنِ خیبرپختونخوا ارشاد قیصر نے کہا کہ کیا ڈرائیورز سمیت سب کی بیٹریاں ختم ہوگئی تھیں؟وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ انتخابی عملے کا دفاع نہیں کروں گا، جن کے نتائج میں تبدیلی نہیں ہوئی کیا ان کے موبائل آن تھے؟

پریزائڈنگ افسران کادیر سے آنا کوئی غیر قانونی چیز نہیں کہ اس پر دوبارہ الیکشن کرایا جائے۔چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ ووٹرز کے لیے خوف و ہراس کی فضا ہو تو کیا ہوگا؟ اگر ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ ووٹر ووٹ نہ ڈال سکے تو پھر کیا ہونا چاہیے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بہتر تھا ریٹرننگ افسر نتائج کا اعلان کرتے، نتائج کا اعلان ہونے کے بعد ٹربیونل سے رجوع کیا جا سکتا تھا، کسی پریذائڈنگ افسر نے اغوا ہونے یا نتیجہ تبدیل کرنے کا نہیں کہا،

انکوائری کرنا الیکشن کمیشن نہیں ٹربیونل کا کام ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ علی اسجد کے پارٹی سربراہ نے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا بیان دیا۔رکن سندھ نے کہا کہ کیا 10 پریزائڈنگ افسران کے لاپتا ہونے کا مطلب قانون کی صریحاً خلاف ورزی نہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کے لیے کمیشن کو پہلے قرار دینا ہوگا کہ پریزائڈنگ افسران نے جھوٹ بولا۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سال 2018 کے عام انتخابات میں فارم 45 کا مسئلہ سامنے آیا تھا لیکن الیکشن کمیشن کو فارم 45 نہ ملنے کی شکایت نہیں آئی۔

سماعت میں پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی نے کہا کہ مریم نواز نے رات ساڑھے بارہ بجے ہی فتح کا اعلان کر دیا تھا، کئی بار الیکشن ہارنے پر پولنگ ایجنٹس فارم 45 کی کاپی نہیں لیتے۔

بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر نے حلقہ این اے 75 ڈسکہ سے متعلق سماعت پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔الیکشن کمیشن نے حکم دیا کہ حلقے میں الیکشن کے لیے سازگار ماحول نہیں تھا جس کے بعد الیکشن کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن میں جو امیدواروں کو ماحول دیا گیا وہ منصفانہ نہیں تھا، یہ فری اور فیئر ماحول میں الیکشن منتخب نہیں ہوسکے تھے جس کی بنا پر اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن میں دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ (ن)کی امیدوار نوشین افتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی تھی جن کے نتائج روکے گئے تھے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 75 (سیالکوٹ 4) میں ضمنی انتخاب میں نتائج میں غیرضروری تاخیر اور عملے کے لاپتا ہونے پر 20 پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو غیرحتمی نتیجہ کے اعلان سے روک دیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ این اے 75 سیالکوٹ کے نتائج غیرضروری تاخیر سے موصول ہوئے اور اس دوران متعدد مرتبہ پریزائڈنگ افسران سے رابطے کی کوشش بھی کی گئی مگر رابطہ نہ ہوسکا۔

اعلامیے کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسر حلقہ این اے 75 نے آگاہ کیا ہے کہ 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے، لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقے کا غیرحتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں۔ بتایا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسر کو این اے 75 سیالکوٹ کے غیرحتمی نتیجے کے اعلان سے روک دیا ہے اور مکمل انکوائری اور ذمہ داران کے تعین کی ہدایات کی گئی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خاں نے ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اےـ75 پر ہوئے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سے 20 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دینے کا کہا تھا۔