لاہور( لاہورنامہ)چیئرمین قومی احتساب بیورو ( نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ جو لوگ چند کیسز میں یہ مثالیں دیتے ہیں کہ حکومتی لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا وہ اس کی تاریخ دیکھ لیں ، ان کیسز میں عدالتوں کے فیصلے آئے ہوئے ہیں .
اور عدالتوں نے روکا ہے ، ایک بات ہر ذی شعور کو سمجھنی چاہیے کہ کچھ لوگ تیس پینتیس سال اقتدار میں رہے ہیں اورکچھ کو ابھی پینتیس مہینے نہیں گزرے لیکن نیب مایوس نہیں کرے گا ،
پک اینڈ چوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،نیب کا ادارہ عوام کی خدمت کے لئے وجود میں آیا یہ بڑے لوگوں کی خدمت کے لئے وجود میں نہیں آیا ،اگر نیب سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہوتا تو سٹاک ایکسچینج اوپر نہ جاتی جس نے تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑے ہیں ،آپ کی برآمدات اتنی زیادہ نہ ہوتیں،
آپ کو ترسیلات زر نہ ملتیں، تعمیراتی شعبہ اتنا ترقی نہ کرتا ہے،یہ کہا گیا کہ نیب چھوٹی مچھلیوں کو پکڑتا ہے ، ہم نے تو شارک مچھلیوں اور مگر مچھوں کو بھی پکڑا ہوا ہے اورسمندر میں اس سے بڑی کوئی اورمخلوق نہیں جسے ہم نہ پکڑیں،
نیب آرڈیننس میں لاکھ دفعہ ترامیم کریں لیکن سپریم کورٹ اسفند یار ولی کیس میں نیب قانون کے ایک ایک لفظ کو دیکھ چکی ہے ، جو شقیں آئین سے مطابقت نہیں رکھتی تھی وہ ختم ہو چکی ہیں،کیا کچھ لوگ سپریم کورٹ سے زیادہ ذہین اورزیادہ قابل ہیں ،بتائیں پلی بار گن ختم کر کے کیا طریق کار اختیار کریں گے؟
آپ بیشک ترامیم کریں ، قانون سازی پارلیمنٹ کااختیار ہے ،ارباب اختیار سے گزارش کروں گا جیسے مرضی قانون میں ترمیم کریں لیکن اسفند یار ولی کو کیس میں سامنے رکھیں ۔
انہوں نے نیب لاہور کے دفتر میں ٹویوٹا گوجرانوالہ کیس میں 660متاثرین میں90کروڑ روپے کے چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر ڈی جی لاہور شہزاد سلیم سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب ایک انسان دوست ادارہ ہے ، نیب نے جب بھی کوئی اقدام اٹھایا پہلے پاکستان کی بہتری کے لئے اٹھایا اور پھر عوام کی بہتری کے لئے اٹھایا ، ہمیں اس سے اس سے کوئی غرض نہیں کہ جن بڑے لوگوں کے خلاف کیسز درج ہوئے وہ میڈیا میں آکر کیا کہتے ہیں ،
ان کی تنقید کیا ہوتی ہے کوئی یہ نہیںکہہ سکتا کہ ہمارا کوئی اقدام ملک یا عوام کے خلاف تھا ۔نیب کا ادارہ عوام کی خدمت کے لئے وجود میں آیا یہ بڑے لوگوں کی خدمت کے لئے وجود میں نہیں آیا ،شاید بڑے لوگوں کو توہماری خدمت کی ضرورت ہی نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک صاحب خطاب کر رہے تھے اور انہوں نے کہاکہ سرمایہ کاری نیب کی وجہ سے رک گئی ہے اور نیب کے قانون ہے میں تبدیلی ہونی چاہیے.
کاش یہ لوگ نیب کا قانون پڑھ کر آ جاتے ، تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ہم نے تنقید برائے تعمیر کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے ،جو تنقید برائے تعمیر کرتے ہیں ان کے لئے سب بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ انہیں حقائق کا ادراک ہونا چاہیے ،
انہیں حقائق کا ادراک ہوتا نہیں او ریہ روسٹرم پر آکر تقریر شروع کر دیتے ہیں ، یہ کہتے ہیں کہ نیب او رپاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ، نیب او رپاکستان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں نیب او رکرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ جو لوگ بات کرتے ہیں ان کے لئے حقائق اور قانون سے واقفیت ضروری ہے ۔
جو سویرے عدالت میں پیشی بھگت رہے ہوتے ہیں وہ ایک گھنٹے بعد خطاب کر رہے ہوتے ہیں اوران کا جو دل چاہتا ہے کہتے ہیں۔ تنقید کیلئے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں وہ ان کو پیش نظر رکھ کر تنقید کریں نیب کو بھی ان سے سیکھنے کا موقع ملے گا ، یہ نہیں کہ آپ چار گالیاں دے کر چلے جائیں گے اس سے اس سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نیب سرمایہ کاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ،آج آپ کی برآمدات بڑھ رہی ہیں یہ صرف نیب کی وجہ سے بڑھ رہی ہے ، ایک سرمایہ کار بتا دیں جس نے یہ کہا ہو کہ میں نیب کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں کرتا ۔