ڈاکٹر محمد عاصم یوسف

ہپاٹائٹس بی اور سی جگر کے کینسر کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں، ڈاکٹر محمد عاصم یوسف

لاہور (لاہورنامہ)دنیا بھر میں ہر سال 28مئی کو ہپاٹائٹس سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اسی دن کی مناسبت سے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر کے سی ای او، کنسلٹنٹ گیسٹرو انٹالوجسٹ ، ڈاکٹر محمد عاصم یوسف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس مرض کے پھیلائو، علامات اور اس سے بچائو کے طریقوں کے بارے میں بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہرسال عالمی ادارہ صحت اس مرض کی آگاہی کے لیے ایک موضوع منتخب کرتا ہے اور اس سال کا موضوع ہے کہ ہپاٹائٹس انتظار نہیں کر سکتا۔ یہ وہ مرض ہے جس سے دنیا بھر میں ہر 30سیکنڈ میں کسی شخص کی موت ہو جاتی ہے ۔

دائمی ہپاٹائٹس کو خاموش قاتل بھی کہا جاتاہے کیونکہ اس کی علامات بہت دیر سے ظاہر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بیماری سے لاعلم رہتی ہے۔ دیر سے تشخیص ہونے کی وجہ سے مریض کے جگر کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچ جاتاہے ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس مرض کا پھیلائو بہت زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 12ملین لوگ ہپاٹائٹس بی او ر سی کا شکار ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ ہپاٹائٹس کے مرض کا تعلق جگر کی سوزش سے ہے جس سے جگرکا نظام کو متاثر ہوتاہے ۔ اس مرض کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے منشیات کا استعمال ، الکوحل اور موٹاپا دنیا بھر میں سب سے
عا م ہیں ۔

اس مرض کی پانچ اقسام ہیں جنہیں ہیپا ٹائٹس اے، بی، سی ،ڈی اور ای کہا جاتا ہے ۔ اگرچہ یہ تمام اقسام جگر کے مسائل پیدا کرتی ہیں لیکن ان کے پھیلائو کے ساتھ ساتھ ان سے محفوظ رہنے کی احتیاطی تدابیر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ہپاٹائٹس اے اور ای آلودہ پانی یا خوارک سے پھیل سکتے ہیں جبکہ ہپاٹائٹس بی ، سی اور ڈی خون یا جسم سے نکلنے والے مواد سے پھیلتے ہے۔

ہپاٹائٹس بی اور سی سے بچائو کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ یہ ایک متاثرہ شخص کی استعمال شدہ سرنج کے دوبارہ استعمال ، غیر تصدیق شدہ خون انتقال خون، دانتوں یا جسم کے دیگر حصوں کی سرجری یا حجامت کے دوران آلودہ آلات کے استعمال سے پھیلتا ہے ۔

ہپاٹائٹس بی سے بچائو کے لیے ایک ویکیسین دستیاب ہے جو کہ اس مرض کے پھیلائو کو کنٹرول کرنے میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ شوکت خانم ہسپتال میں اس حوالے سے احتیاطی تدابیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں آنے والے تمام نئے ملازمین کی ہپاٹائٹس بی ، سی کی سکریننگ کی جاتی ہے ۔

جبکہ ہسپتال میں اس حوالے سے بین الاقوامی طور پر رائج شدہ اقدامات جیسا کہ خون کی سکریننگ کا عمل ، آلات کی صفائی اورڈسپوزیبل سرنج کے استعمال پر سختی سے عمل کیا جاتاہے۔

حاملہ خواتین کی سکریننگ اور ہپاٹائٹس ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش کے وقت ہپاٹائٹس بی کی ویکسین لگوانے سے یہ مرض ماں سے بچے میں منتقل نہیں ہوتا۔ نیشنل امیونائیزشن پروگرام کے تحت بچوں میں ہپاٹائٹس بی کی ویکسین اس مرض کے مزید پھیلائو کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ چونکہ ہپاٹائٹس سی کے لیے ابھی تک کوئی موثر ویکسین دستیاب نہیں ہے اس لیے احتیاط ہی اس سے بچنے کا سب سے اہم طریقہ ہے ، یہ مرض قابل علاج ہے لیکن کامیاب علاج کے لیے ضروری ہے کہ بر وقت مستند ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے ۔

ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ اس مرض کے بارے میں مستند معلومات کی کمی سے معاشرے میں اس بیماری کے حوالے سے منفی رحجانات پائے جاتے ہیں ۔ آگاہی ایک ایسا میدان ہے جہاں میڈیا تصدیق شدہ معلومات فراہم کر کے انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔