اسلام آباد (لاہورنامہ)سوشل میڈیا صارفین کے خلاف ہتک عزت کے قانون کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس میں عدالتی معاون عدنان رندھاوا ایڈووکیٹ نے تفصیلی رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی .
جس میں کہا گیا کہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی سیکشن 20 آزادی رائے آزادی صحافت سے متصادم ہے،پیکا کی سیکشن 20 بنیادی آئینی حقوق سے بھی متصادم ہے ۔عدالتی معاون نے رپورٹ میں کہاکہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی سیکشن 20 کے ذریعے پارلیمان نے آئینی حدود سے تجاوز کیا،
سیکشن 20 شہریوں،صحافیوں کو آزادی رائے، آزادی صحافت سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ سیکشن 20 نے ایف آئی اے کو آزادی رائے اور آزادی صحافت کے خلاف لا محدود اختیارات دے دیئے۔ رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے اختیارات کا غلط استعمال کر سکتی ہے جبکہ آئین میں اس کی اجازت نہیں،
سیکشن 20 نے انگریز کے بنائے ہتک عزت کا قانونی تحفظ بھی واپس لے لئے۔ رپورٹ کے مطابق پیکا سیکشن 20 کے بعد آزادی رائے کے آئینی حقوق کا استعمال تقریباً ناممکن بنا دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق سیکشن 20 آرٹیکل 19 میں درج ”مناسب پابندیوں” کی حد سے بھی متجاوز ہے اسے کالعدم کرنا مناسب ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کا آئین بھارت کے آئین کے مقابلے میں شہریوں اور صحافیوں کو آزادی رائے کے زیادہ حقوق دیتا ہے، پاکستانی قوانین کا بھارتی قوانین کے ساتھ موازنہ مناسب نہیں