تہران (لاہورنامہ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کے اندر مصروف کار دہشت گرد تنظیمیں عالمی امن واستحکام کے لئے خطرہ ہیں، افغانستان سیاسی استحکام کی طرف عبوری دور سے گزر رہا ہے.
افغانستان میں عبوری کابینہ میں توسیع راست اقدام ہے ، افغانستان میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے سکول دوبارہ کھلونے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے،نازک مرحلے پر تمام فریقین کو ماضی کی غلطیوں کے اعادہ سے بچنا ہوگا، مثبت روابط کو برقرار رکھتے ہوئے افغان عوام کے ساتھ یک جہتی ظاہر کرنا ہوگی،
ہماری اجتماعی کوششیں معاشی ابتری کو روک سکتی ہیں،معاشی انہدام سے عدم استحکام، تنازعات پیدا ہوں گے ، ہمسایہ ممالک اور دیگر خطوں کو مہاجرین کی بڑی یلغار کا سامنا کرنا پڑے گا،ہمیں ایک ایسے افغانستان کی مدد کرنا ہوگی جو علاقائی استحکام اور رابطے جوڑنے کے فروغ میں مثبت حصہ ڈالے،خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے یہ کام کرنا ہوگا۔
بدھ کو یہاں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے دوسرے وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی اس دوسری نشست کی میزبانی پر میں ایران کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ میں افغانستان کے دیگر دوستوں یعنی محترم ساتھی وزرائے خارجہ کا بھی خیرمقدم کرنا چاہوں گا،خاص طورپر وزیر خارجہ لائوروف کو اس عمل کا حصہ بننے پر خوش آمدید کہتا ہوں۔
انہوں نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ ہماری گزارشات افغانستان پر ہمارے موقف کے نئے دریچے کھولنے میں مددگار ثابت ہوں گی اور آگے بڑھنے کی متفقہ راہیں کھولیں گی۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب نے 15 اگست سے افغانستان میں اہم پیش رفت دیکھی ہیں ،یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ تبدیلی خوں ریزی کے بغیر ہوئی اور کسی انتقام وبدلہ کے رویوں سے بچاگیا، خوش قسمتی سے مہاجرین کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان سیاسی استحکام کی طرف عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ افغانستان میں عبوری کابینہ میں توسیع راست اقدام ہے .انہوں نے کہاکہ ہم کابل میں زیادہ سے زیادہ اجتماعیت کے حامل عبوری نظام کے قیام کی سوچ اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان کثیرالنسلی معاشرے پر مشتمل ہے۔ ملک کے مستقبل میں وہاں کے ہر طبقے کا ایک کلیدی مفاد،حصہ اور کردار ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے اس حقیقت کا احترام ناگزیر ہے اور سیاسی نظام میں اس کی جھلک ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہاکہ یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ تمام افغانوں کے حقوق کا مکمل احترام ہو۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے سکول دوبارہ کھلونے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغان معاشرے کی ترقی میں خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اْن کے لئے مواقعوں کی فراہمی جاری رکھنے سے افغانستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں اضافہ ہو گا.
انہوں نے کہاکہ عالمی رابطوں کا جہاں تک تعلق ہے تو پاکستان چین اور روس کے نمائندگان خصوصی کے دورے کابل میں نئی انتظامیہ کو ہمارے نکتہ نظر سے آگاہ کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم روس، چین اور پاکستان کے نمائندگان خصوصی کے اجلاس اور گزشتہ ہفتے میں ماسکو فارمیٹ اجلاس کی میزبانی پر روس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس سے افغان عبوری نظام کو بھی عالمی برادری سے رابطوں کا موقع ملا ہے۔
انہوں نے کہاکہ غیرملکی مدد کے اچانک بند ہوجانے سے ایک بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے، اس دوران بینک بھی معمول کے مطابق کام نہیں کررہے۔ انہوں نے کہاکہ تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 90 فیصد سے زائد افغان آبادی اگلے سال خط افلاس سے نیچے جاسکتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اطلاعات کے مطابق افغان معیشت پہلے ہی 30فیصد سکڑ چکی ہے،یہ تمام عوامل مل کر ایک حادثے اور سانحے کا بھرپور سامان مہیا کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اپنے حصے کے طورپر پاکستان صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے اپنے تئیں پوری کوشش کررہا ہے، ہنگامی بنیادوں پر خوراک اور ادویات کی افغانستان کو فراہمی جاری ہے۔
انہوں نے کہاکہ زمین اور فضاء سے افغانستان کو انسانی ہمدردی کے تحت عالمی امدادی سامان کی فراہمی وترسیل میں بھی ہم سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان سے درآمدات میں سہولت کے لئے ہم نے افغان مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹیز پر نظر ثانی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم بہت سارے ممالک کی جانب سے افغانستان میں معاشی استحکام کے حصول کے لئے دوطرفہ اعانت کی فراہمی کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کی جانب سے امداد کی اپیل پر 1.2 ارب ڈالر سے زائد کے امداد کے وعدوں کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں تاہم یہ وعدے تاحال عملی شکل اختیار نہیں کرسکے ۔