لاہور(لاہورنامہ) تاجر رہنما و پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی کے بور ڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن خادم حسین نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 1.50 فیصداضافہ کاروبار کے مفاد میں نہیں ہے معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہو جائے گی صنعتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی.
ز یادہ تر ملکی برآمدات کریڈٹ بیسڈ ہیں، انٹرسٹ ریٹ بڑھنے سے انکی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی اور عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گاجس سے برآمدات کو بڑھانے میں مشکلات آئیں گی اور تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا۔ حکومت مہنگائی سے نمٹنے کے لئے شرح سود بڑھانے کی بجائے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کرے، غیر پیداواری اخراجات کو ختم کرے اور غیر ضروری درآمدات پر فی الفور پابندی لگائے۔
خادم حسین نے کہا کہ شرح سود میں 150 بیسک پوائنٹ کا اضافہ کاروبار کرنے کی لاگت کو بڑھا دے گا جو کہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے جبکہ نجی شعبہ کو قرضوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اب شرح سود 8.75 فیصد تک پہنچ گئی ہے جسے موجودہ حالات میں برداشت کرنا مشکل ہو گا اور پیداوار اور برآمدات کا بڑھانا مشکل ہو جائے گا۔
بزنس کمیونٹی پہلے ہی بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت، افراط زر اور روپے کی قدر میں کمی سے پریشان ہے اور اب شرح سود میں اضافہ سے انکے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا اور کاروباری اداروں کے ڈیفالٹ سے بینک اور قرضداروں میں قانونی تنا زعات جنم لیں گے۔اس فیصلے سے حکومت پر بھی دبا بڑھ جائے گا اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے زیادہ سرمایہ صرف کرنا پڑے گا جس سے سماجی شعبہ سمیت تمام شعبہ جات متاثر ہونگے۔
مرکزی بینک کا فیصلہ شرح نمو میں اضافہ کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دے گاجبکہ سرمایہ کاری کے امکانات معدوم ہو جائیں گے جس سے بے روزگاری کے خاتمہ، صنعتی فروغ اور بے روزگاری میں کمی کے حکومتی ویژن کو بریک لگے گی۔
پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کاروباری لاگت پہلے ہی بہت زیادہ ہے، کاروباری برادری کو سستے سرمائے کی ضرورت ہے۔شرح سود میں اضافہ سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ،حکومت جلد بازی میں فیصلے مت کرے اور فیصلہ واپس لے۔