مقبرہ آصف جاہ


اصلی نام مرزا ابوالحسن تھا اور جس کو مختلف مراتب و مناصب سے ترقی دے کر جہانگیر نے 1035ھ میں لاہور کا گورنر بنایا اور آصف جاہ کا خطاب دیا۔ جہانگیر کا انتقال شاہ جہاں کے ابتدائی عہد میں آصف جاہ لاہور اور ملتان دونوں صوبوں کا گورنر تھا۔ 1051ھ میں آصف جاہ کا انتقال ہوگیا۔

 بادشاہ نے حکم دیا کہ لاش مقبرہ جہانگیر کے غربی جانب دفن کی جائے۔ مقبرہ کے چاروں طرف ایک بلند چار دیواری کے باغ تعمیر کیا جائے اور تربت کا گنبد بلند اور عالی شان ہو جو اس کے نام اور کام کی طرح یادگار رہے۔ مقبرے کے آٹھ دروازے اور آٹھ دہلیزیں اور باہر مرغولوں پر ہر جگہ سنگ سرخ اور اس کے دورویہ کانسی کا کام تھا۔ دونوں طرف اوپر جانے کے لئے 26-26 سیڑھیاں ہیں۔ ڈیوڑھی سے مقبرہ تک دورویہ پختہ حشتی فرش اور درمیان میں چھوٹی سی نہر تھی جو مقبرے کے گرد چاروں طرف چھوٹی چھوٹی شاخوں میں چکر لگاتی تھی۔ مقبرے میں سونے چاندی کی قتدیلیں اور جھاڑ فانوس اور فرش فروشن جہانگیر کے مقبرے سے کم نہ تھے۔

رنجیت سنگھ کا دور آیا ۔ مہاراجہ کے حکم سے اس مقبرہ عالی شان کا پتھر بھی اتار لیا گیا۔ مقبرے کے اندر سنگ مرمر کا جو فرش تھا۔ اس کو بھی اکھاڑ کر شہر میں لے آئے۔ صرف قبر کا تعویذ سلامت رہ گیا۔