بدھو کا مقبرہ


جہانگیر کے زمانے میں لاہور کا ایک کمہار سدھو نام اس مقام پر جہاں بدھو کا آوا مشہور ہے اور جو سڑک شالیمار باغ کے کنارے واقع ہے چھوٹا سا بھٹہ بنا کر اینٹیں پکانے کا کام کیا کرتا تھا۔ جب بادشاہ شاہجہاں کے زمانے میں شالامار باغ کی تعمیر شروع ہوئی تو سدھو کے بیٹے بدھو کو اینٹیں بہم پہنچانے کا حکم ملا۔ شالامار باغ کی چار دیواری اور اس کی عمارات کے لیے لاکھوں کروڑوں اینٹوں کی کھپت تھی اس لیے بھٹے یعنی آوے کی حدود بہت دور تک پھیل گئیں اور بدھو اب بدھو کمہار نہ رہا بلکہ شاہی خشت پز کہلانے لگا اور امراء اور حاکم صوبہ تک اس کی رسائی ہو گئی۔

مشہور یہی ہے کہ یہ قبر بدھو کی ہے جس کے نام پر بدھو کا آوا ہے۔ اسی مقبرے کے اندر دو قبریں ہیں۔ غربی جانب جو قبر ہے وہ ذرا چھوٹی ہے اور مشرقی جانب کی قبر ذرا بلند ہے۔ مقبرہ کی عمارت شاہجہانی عمارتوں کا نمونہ ہے۔ گنبد پر منقش چینی کا کام ہے جو ہر چند کہ بہت کچھ مٹ گیا ہے مگر ابھی اس کے اثرات باقی ہیں۔ مقبرے کا بیرونی چبوترہ پندرہ پندرہ قدم مربع ہے’ اکثر جگہوں سے شکستہ ہے۔ ایک بہت بڑا کریر کا درخت چبوترے کے غربی گوشے میں موجود ہے۔ اس گنبد سے قریباً پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے پر مشرق کی طرف اس زمانے کا ایک کنواں شکستہ حالت میں ہے۔ مقبرے کا دروازہ شمال یعنی شہلا باغ کے رخ پر تھا۔ یہاں ایک طویل چبوترے کے آثار اب تک نظر آ رہے ہیں۔