مولانا فضل الرحمن

اگر کوئی پاکستان کا دوست ہے تو افغان طالبان ہیں، مولانا فضل الرحمن

چمن (لاہورنامہ)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ میں بحیثیت سیاستدان اپنے تجربے کی بنیاد پر دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی تنظیم پاکستان کی دوست ہے تو وہ امارت اسلامیہ افغان طالبان ہیں.

پاکستان کی پارلیمان میں اگر قانون سازی ہو تو ایف اے ٹی ایف کی ہدایات کے مطابق ہوتی ہے، منی بجٹ پاس ہوا تو آئی ایم ایف کے دباؤ پر منظور ہوا، ہم نے اپنے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری کے نام پر ملک کے کنٹرول سے باہر کیا اور آج وہ براہِ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہوگا جہاں آپ کا اپنا بینک بھی آپ کی مدد نہیں کریگا،حکمران نااہل لوگ ہیں، دھاندلی کے ذریعے ملک حوالے کیا گیا، یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں ،دنیا بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کررہی ۔

جلسے عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ امریکا چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب ہوں، برطانیہ ہندوستان سے گیا تو کشمیر کا جھگڑا چھوڑ کر گیا تا کہ لڑائیاں ہوتی رہیں، برطانیہ عرب دنیا سے نکلا تو جاتے جاتے اسرائیل کا ناسور چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح امریکا افغانستان سے نکلا تو ڈیورنڈ لائن کا تنازع چھوڑ گیا تا کہ کسی طریقے سے یہ دو دوست، دوست نہ رہیں، سرحدوں پر ہر ملک کا اپنا مؤقف ہوسکتا ہے تاہم سرحدوں کے تنازع پر جنگیں نہیں لڑی جاتیں اور یہ دور جنگوں کا ہے بھی نہیں، اگر ہم یہ جنگ لڑیں گے تو امریکا کی سازش کامیاب ہوگی.

میں پاکستان اور افغانستان دونوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ ہمیں اپنے قدم اس جانب جانے سے روکنے ہوں گے۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی بنائی جارہی ہے تو پہلے تو یہ بتائیں کہ 74 سال تک پاکستان کی کوئی سلامتی پالیسی تھی، اور اگر نہیں تھی تو جواب دیا جائے کہ کیوں نہیں بنائی گئی، آج جب قومی سلامتی پالیسی بنائی جارہی ہے تو جب تک ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہے تو سوال ہی پیدا نہیں کہ آپ سلامتی کی پالیسی بنائیں پہلے آپ کو اس ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ آج کے حکمرانوں نے پاکستان کو دیوالیہ کردیا ہے، معاشی لحاظ سے ملک کو کنگال کردیا گیا ہے، آج پاکستان میں پیسہ نہیں ہے، پارلیمنٹ میں اس وقت جو قانون سازیاں ہورہی ہیں ان میں پاکستان کو مالیاتی اعتبار سے عالمی قوتوں کا غلام بنایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان میں اگر قانون سازی ہوئی تو ایف اے ٹی ایف کی ہدایات کے مطابق ہوتی ہے، اگر آج منی بجٹ پاس ہوا تو آئی ایم ایف کے دباؤ پر منظور ہوا، ہم نے اپنے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری کے نام پر ملک کے کنٹرول سے باہر کیا اور آج وہ براہِ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہوگا جہاں آپ کا اپنا بینک بھی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ یہی غلطی خلافت عثمانیہ نے کی تھی کہ انہوں نے اپنے مرکزی بینک کو عالمی اداروں سے وابستہ کیا، پھر جب عثمانی خلافت پر مشکلات آئیں تو ان کے اپنے بینک نے انہیں قرضہ دینے سے انکار کردیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے حوالے سے قانون تو ابھی منظور ہوا لیکن جولائی سے 2019 سے اسٹیٹ بینک نے پاکستان کی موجودہ حکومت کو ایک روپے کا قرض بھی نہیں دیا، پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 100 فیصد ڈالرز قرض کے رکھے ہوئے ہیں ہماری اپنی اقتصادی ترقی، اپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی ہمارے بینکوں میں موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ ملک اس وقت تباہ ہوجاتے ہیں جب اس کی معیشت تباہ ہو، آج جو ہم ان حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، بخدا ہم پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کشمیریوں کو بھارت کے ظلم کے حوالے کردیا ہے کیوں کہ ہمارے بس میں نہیں، عام آدمی تو کہتا ہے میرے پاس بجلی، گیس کے بل ادا کرنے، بچوں کی فیس نہیں دے سکتا، بازار سے راشن نہیں خرید سکتا تاہم خبر آئی ہے کہ فوج نے بھی درخواست کردی ہے کہ ہمارے بجلی کے بلز 50 فیصد معاف کردیے جائیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر ہماری سپاہ کا بھی یہ حال ہوجائے تو بتائیں کہ کیا بنے گا، ان حالات میں بھی پاکستان کا مذہبی طبقہ، پاکستان کے مدارس، علما اس ملک کے ساتھ وفادار اور ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ملک میں مہنگائی ہے، ملک کنگال ہے، انہوں نے نوجوانوں کو کہا کہ ہماری حکومت آئے گی تو ایک کروڑ نوکریاں دے گی تاہم انہیں یہ معلوم نہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے ان 74 برسوں میں چھوٹے عہدے سے بڑے عہدے تک ملازمتوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی۔