لاہور( لاہورنامہ)اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے بالآخر پیپلز پارٹی کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا .
حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطوں کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی جو ان سے ملاقاتیں کر کے اپنے موقف پر قائل کر ے گی ۔ یہ اعلان پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے صدر مولانا فضل الرحمن نے اپنی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ، مریم نواز، حمزہ شہباز، اکرم خان درانی، عطا اللہ تاررڑ سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔
مولانا فضل الرحمن نے اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اجلاس ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا اس لئے اتحاد میں شامل جماعتوں کے اکثر و بیشتر سربراہان نے نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی ۔ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم ناجائز حکمران کے خلاف عدم اعتماد لائیں گے،اس سلسلہ میں حکومت کی حلیف جماعتوں سے بھی رابطے کریں گے کہ وہ اپنا اتحاد ختم کر کے ملک او ر قوم پر رحم کریں ،ملک کے مستقبل اور عوام کی بد حالی کو مد نظر رکھیں اور اس حکومت کامزید اتحادی رہنا سیاسی اوراقتصادی طور پر ملک کے لئے مفید نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک وفد تشکیل دے رہے ہیں جس کے ارکان کا فیصلہ بعد میں کیاجائے گا ، یہ وفد حلیف جماعتوں سے رابطہ کر ے گا او رانہیں اپنے موقف پر قائل کرنے کی کوشش کر ے گا ۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پہلے ہم کچھ پیشگی ہوم ورک ہوتا ہے وہ مکمل کریں گے ،کیونکہ حلیف جماعتوں کے بغیر عدم اعتماد کا ووٹ مکمل نہیں ہوگا،ایسا نہیں ہوسکتا کہ روایتی طور پر کوئی چیز پیش کر دی اور ختم ہو گئی ۔انہوںنے کہا کہ بار بار ایک بات کہہ چکا ہوں میں ہدف ایک ہی رکھتا ہوں، ہزار اختلافات کے باوجود میں نے کبھی کسی اپوزیشن جماعت کے خلاف پبلک میں جنگ نہیں لڑوں گا ۔
پیپلز پارٹی سے معافی مانگنے کے حوالے سے جہاں تک سوال ہے تو میں مجھے اس کا جواب خوب آتا ہے اور آپ بھی عش عش کر اٹھیں گے لیکن میں پبلک میں کوئی بات نہیں کروں گا ، اس سے اپوزیشن کی ایک جماعت ہو گی ، ہم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہوں ہم دوست ہیں، موجودہ حالات میں دو محاذوں پر جنگ لڑنا کوئی دانشمندی والی بات نہیں ہے ۔
پیپلز پارٹی پر اعتماد کے حوالے سے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ سیاست میں جب بڑے اقدامات او ر فیصلے کرتے ہیں تو پھر بڑے دل بھی کرنا پڑتا ہے اور مشترکات ہوتے ہیں، پہلے اتفاق رائے موجود نہیں تھا، اب حالات بدل گئے ہیں، اس وقت کھیل کسی او ر کے ہاتھ میں تھے، انتظار بھی کرنا پڑتا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ذہن میں آگئی اور آپ نے اقدام کر دیا ،اگر ماحول موافق نہیں ہے تو پھر آپ ہی کہیں گے آپ نے کیوں کیا ،ہم سیاسی لوگ ہیں ہم اتفاق رائے اور سو چ سمجھ کر اقدام کریں گے ، اس لئے دوبارہ کہوں گا کہ جو گرائونڈ تیار کرنے والی بات ہے ابھی اس پر بات او رکام ہونا باقی ہے ۔