لاہور(لاہورنامہ)صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ ہے کہ عدم برداشت کے کلچر کو ختم کر کے معاف کرنے کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا،حکومت خواتین کو حقوق کی فراہمی کے لیے بھرپور اقدامات اٹھا رہی ہے.
حکومتی اور انتظامی معاملات میں اختیارات کا غلط استعمال کسی بھی معاشرے کی تباہی کا سبب ہوتا ہے،حکومت کرپشن کے خاتمہ کے لیے تمام وسائل بروئے کا ر لا رہی ہے،قومیں تب ترقی کرتی ہیں جب ان کے ادارے غیرجانبدار ہو کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں،سسٹم کی بہتری کے لیے ہر فردکو اپنا مثبت کردا ر ادا کرنا ہو گا،’بطور سول سرونٹس آپ کے دروازے عوام کے لیے ہمیشہ کھلے ہونے چاہئیں تاکہ ان کے مسائل حل کئے جا سکیں ۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار منگل کے روز سول سروسز اکیڈمی والٹن میں 49 ویں کامن ٹریننگ پروگرام کی پاسنگ آئوٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صدر مملکت نے 49 ویں کامن ٹریننگ پروگرام میں پاس ہونے والے آفیسرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں پاس آئوٹ ہونے والے تمام آفیسرز بالخصوص ان کے والدین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے آپ کی تربیت کی اور آپ کو اس قابل بنایا کہ آج آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں.
تعلیم کی حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے جو کامیابی کی سیڑھی چڑھنے میں مدد فراہم کرتی ہے لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کو حقیقی تربیت اپنے گھر سے اور اس جگہ سے ملی ہے،زندگی کے ہر دور میں آدمی سیکھتا ہے اور ہمیشہ سیکھنے کی خواہش رہنی چاہئے ۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ آپ کا اصل امتحان عملی زندگی میں شروع ہوگا جہاں پر آپ کو ثابت قدم رہ کر اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری ایمانداری سے پوری کرنا ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو سیاستدانوں سے بہت امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ انہیں منتخب کرتے ہیں لیکن جو پالیسیاں حکومتی نمائندے ترتیب دیتے ہیں ان پالیسوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری آپ لوگوں پر منحصر ہوتی ہے۔صدر مملکت نے کہاکہ ہر شخص کی زندگی میں ترجیحات ضرورہونی چاہیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکے،اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہاکہ میں یہاں لاہور میں ایف سی کالج کے ہاسٹل میں رہتا تھا اور سارا سال کھیل کود میں مصروف رہتا چونکہ امتحان سال کے آخر میں ہوتے تھے اس لیے ہم اکثر بے فکر رہتے ، سال کے آخر میں جب امتحان شروع ہوتے تو میں خاصا پریشان ہوتا اور جب میں اپنے گھر کراچی واپس جاتا تو میرے پاس صرف کھیلوں میں جیتے ہوئے انعامات اور میڈل وغیرہ ساتھ ہوتے تو میں اپنی والدہ کو اپنی پریشانی بتاتا تو وہ میرے تمام میڈلز وغیرہ مقامی سکول کی گیلری میں جمع کروا دیتیں اور مجھے نصیحت کرتیں کہ بیٹا ایک کامیاب شخص وہ ہوتا ہے جس کی زندگی میں ترجیحات شامل ہوں .
اور اس کی زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے،میں نے ان کی نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کی۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ضروری نہیں ہر آدمی ٹارگٹ حاصل کرلے لیکن کوشش جاری رکھنا چاہئے،ہر کوئی ایک دوسرے پر بازی لینے کی کوشش میں مصروف ہے’زندگی کی دوڑ میں مقابلہ بازی ضرورہونی چاہیے لیکن دوسروںکا حق مار کر نہیں بلکہ دوسرے کی دلجوئی اور ان کا اعتماد حاصل کر کے انسان اپنے آپ میں خود بھی ایک معمہ ہے ‘بہت کم لوگ اپنے آپ کو پہچانتے ہیں،انسان کو اپنی ذات کے اندر بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔صدر مملکت نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے’ہمارا دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے.
‘بحیثیت پاکستانی ہمیں تعصب سے بالاتر ہوکر دوسروں کی رائے کا احترام کرنا چاہیے، ہمیں ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کے کلچر کو فروغ دینا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ بطور سول سرونٹ آپ کے دروازے عوام کے لیے کھلے ہونے چاہئیں تاکہ ان کے مسائل بلا امتیاز حل ہو سکیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے چند دوست سیاستدان ممبر قومی وصوبائی اسمبلی شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں عزت نہیں دی جاتی .
میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے آپ کو عوام کی خدمت کے لیے منتخب کیا ہے کیا یہ عزت کم ہے’ عزت اور ذلت کا مالک اللہ تعالی ہے ‘ہیر ا ہمیشہ ہیرا ہی رہتا ہے چاہے وہ کیچڑ میں بھی پڑا رہے، اسی طرح ایک ظرف رکھنے والا اور ایماندار شخص کبھی بھی نہیں بدلتا چاہے اسے جتنی مرضی آزمائشوں سے گزرنا پڑے،آپ کی عملی زندگی میں بھی نشیب و فراز آئیں گے لیکن آپ کو مستقل مزاجی اور استقامت سے اپنے فرائض سرانجام دینا ہونگے۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ حکومت خواتین کو تمام حقوق کی فراہمی کے لیے بھرپور اقدامات اٹھا رہی ہے’ خوشی ہے کہ پاس آئوٹ ہونے والے آفسیرز میں خواتین کو بھی نمائندگی حاصل ہے۔
تقریب میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ افضل لطیف ‘ڈائریکٹر جنرل سول سروسز اکیڈمی عمر رسول،ڈائریکٹر کامن ٹریننگ پروگرام کامران احمد ودیگر بھی موجود تھے۔بعد ازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپورٹس اور اکیڈمک سرگرمیوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے افسران میں شیلڈز تقسیم کیں۔