افراتفری پھیلانا بند کرے

امریکہ دنیا میں افراتفری پھیلانا بند کرے،یوکرین میں ابھی بھی ہتھیار بھیج رہا ہے

بیجنگ (لاہورنامہ) سویڈن میں اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے حال ہی میں عالمی ہتھیاروں کی فروخت کے رجحانات کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے .

جس کے مطابق 2012 سے 2016 تک کے مقابلے میں 2017 سے 2021 تک، اسلحے کی عالمی تجارت میں 4.6 فیصد کمی ہوئی، لیکن اس دوران امریکی ہتھیاروں کی برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔مزید یہ کہ دنیا میں ہتھیاروں کی فروخت میں امریکہ کا تناسب 32 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد ہو گیا۔

چینی میڈ یا نے بتا یا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فوجی اخراجات ایک طویل عرصے سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں، جن میں سے کم از کم ایک تہائی ہتھیاروں کے ڈیلرز کو حاصل ہوا ہے۔ روس- یوکرین تنازعے کے بعد امریکہ نے یوکرین کو ہتھیار بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جرمنی، فن لینڈ، پولینڈ اور دیگر یورپی ممالک نے امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری کے بڑے بڑے آرڈرز دیئے ہیں۔

روس- یوکرین تنازعے کے بعد،امریکی اسلحہ کمپنیز کی اسٹاک پرائس میں بڑا اضافہ ہوا اور انہیں اس جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے ۔
شکاگو یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر جان میئر شیمر نے حال ہی میں ایک امریکی تھنک ٹینک کے مباحثے میں نشاندہی کی کہ نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع روس اور یوکرین کے درمیان تنازعے کا سبب ہے، امریکہ کو اس کی ذمہ داری اٹھانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ "مغربی ممالک ریچھ کی آنکھ میں چھڑی مار رہے ہیں اور جب آپ ریچھ کے ساتھ ایسا کریں گے تو ریچھ اس سے محظوظ نہیں ہوگا بلکہ وہ جوابی رد عمل دے سکتا ہے یعنی ریچھ یوکرین کو ادھیڑ کر رکھ دے گا اور ریچھ یوکرین کو ادھیڑ رہا ہے۔

روس اور یوکرین کے عوام جنگ کے ناقابل تلافی آلام سے دوچار ہیں اور امریکہ سمیت پوری دنیا کےعوام بھی اس تنازعے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔ تاہم، امریکہ اب بھی یوکرین میں ہتھیار بھیج رہا ہےاور پابندیوں سے تنازعات کو ہوا دے رہا ہے۔دوسرے خطوں میں، امریکہ اب بھی نام نہاد انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی اور دیگر بہانوں سے مختلف تنازعات کھڑے کر رہا ہے اور اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے دوسرے ممالک کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بعض امریکی سیاستدانوں کی نظر میں امریکہ ہمیشہ سے "نمبر ون” ہے اور دوسرے ممالک شطرنج کے مہرےہیں، حتیٰ کہ امریکی مفادات کے لیے کسی بھی وقت اتحادیوں کے مفادات کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دوسرے علاقوں میں افراتفری پیدا کر کےوہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ "جو آگ سے کھیلتا ہے، وہ خود ہی اس میں جل جاتا ہے "کیونکہ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔

چند امریکی شخصیات بہت پیسے والی ہیں اور مزید پیسہ کما بھی رہی ہیں ، لیکن عام امریکیوں کی اکثریت تنازعات کے زبردست دباؤ میں ہے۔ بائیڈن نے حال ہی میں 2022 کے 1.5 ٹریلین ڈالر کے اومنی بس ایپروپریئیشن بل پر دستخط کیے۔ اس میں یوکرین کے لیے 13.6 بلین ڈالر کی امداد شامل ہے، لیکن کووڈ-۱۹ کی وبا سے لڑنے کے لیے امریکیوں نے ایک پیسہ بھی مختص نہیں کیا ۔ بائیڈن انتظامیہ نے بل میں انسداد وبا کے لیے 15 بلین ڈالر کی رقم شامل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے حکام نے کہا کہ اضافی فنڈنگ کے بغیر، انسداد وبا کے اقدامات جلد ہی یا تو ختم کیے جائیں گے یا پھر کم کیے جا سکتے ہیں۔ وبا سے شدید متاثر امریکی عوام کو مزید مالی امداد نہیں مل سکتی ،بلکہ انہیں روس اور یوکرین کے درمیان تنازعے کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔