بیجنگ (لاہورنامہ) یونیورسٹی آف لاہور میں اسکول آف کریئیٹو آرٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر احمد شیخ نے کہا کہ پا کستان اور چین کے نوجوانوں کیلئے ایک دوسرے کی زبان سے شناسائی روابط میں بہتری کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی جمہوریہ چین کے پہلے وزیر اعظم چھَو این لائی کی لاہور آمد پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا، جو پاکستانی عوام کے دلوں میں چین کی گہری محبت کا مظہر ہے۔
انہوں نے ان خیا لات اکا ظہار ایف ایم 98 دوستی چینل، چائنہ میڈیا گروپ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ایک ویبینار میں کیا۔ ویبینار میں نئے دور میں چین-پاکستان ثقافتی راہداری کی تعمیر میں نوجوانوں کے کردار پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
احمد شیخ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کیلئے ایک ایسی ثقافتی راہداری کی تعمیر بھی ضروری ہےجس میں دونوں ممالک کی زبان اور ثقافت کو فروغ دیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ایف ایم 98 نے پاکستانی نوجوانوں کو چینی ثقافت سے روشناس کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ضروری امر یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلوں کا سلسلہ مزید مضبوط بنایا جائے۔
اس موقع پر بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں اردو ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر چؤ یوآن نسرین نے بتایا کہ ان کی جامعہ سے فارغ التحصیل ہونیوالے بیشتر طالبعلم دونوں ممالک کے مابین ثقافتی تبادلوں کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2007ء میں قائم ہونیوالے اردو ڈیپارٹمنٹ سے تعلیم حاصل کرنیوالے چند طلباء کی جانب سے پاکستانی گیتوں اور ٹی وی پروگرامز کا چینی زبان میں ترجمہ کرنے کے بعد انہیں مقامی معروف ویب سائٹس پر شائع کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
چؤ یوآن نسرین کے مطابق بیجنگ کے علاوہ چین کے دیگر شہروں میں بھی اردو زبان سیکھنے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور بہت سی جامعات میں باقاعدہ اردو ڈیپارٹمنٹس کا آغاز ہوچکا ہے۔
ویبینار میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے میڈیا سٹڈیز کے پی ایچ ڈی اسکالر باسم میر نے کہا کہ پاک-چین ثقافتی راہداری کی تشکیل کیلئے عوامی سطح پر دوطرفہ روابط مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 70 سال سے زائد عرصے سے جاری پاک-چین دوستی قائم رکنے کیلئے نوجوان نسل کو فعال کیا جائے اور اس مقصد کیلئے ثقافتی و تعلیمی تبادلوں کے مزید پروگرامز متعارف کروائے جائیں۔ باسم میر نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں سے اقتصادی فوائد کے علاوہ ثقافتی مقاصد بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں، تاکہ پاکستانی نوجوان چین کی کامیابیوں سے بہتر طور پر واقفیت حاصل کرسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں چینی زبان سیکھنے کے مزید مواقع فراہم کئے جائیں، جبکہ مختلف فورمز پر دونوں ممالک کے نوجوانوں کے براہ راست روابط ثقافتی راہداری کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں اردو ڈیپارٹمنٹ کے فارغ التحصیل لیو چھن یو آفتاب نے کہا کہ چینی وزیر اعظم لی کھہ چھیانگ نے مئی 2013ء میں دورہ پاکستان کے موقع پر سی پیک کی تجویز پیش کی تھی، جس کا اصل مقصد دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانا، روابط میں اضافہ اور چین-پاکستان مشترکہ ترقی کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور تجارتی تبادلوں کے ثمرات مختلف میدانوں میں دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلوں میں اضافے کی ضرورت ہے، جو ایک دوسرے کو جاننے اور قریب لانے کے بہترین طریقے ہیں۔
لیو چھن یو آفتاب نے کہا کہ اس مقصد کیلئے دونوں ممالک کے نوجوانوں کو آگے آنا چاہیئے، جبکہ چین-پاکستان ثقافتی راہداری کے فروغ کیلئے ادبی کاوشوں بالخصوص نثر اور شاعری کا ترجمہ ضروری ہے، جن کی تعداد اس وقت انتہائی کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال کے 2 مجموعوں کا چینی ترجمہ 1950ء میں کیا گیا، جس کے بعد سال 2000ء میں اسرارِ خودی کا ترجمہ کیا گیا، جو علامہ اقبال کا اردو نہیں بلکہ فارسی کلام ہے۔
2019ء میں پیکنگ یونیورسٹی نے پاکستان کی منتخب نظموں کا چینی ترجمہ شائع کیا گیا۔ لیو چھن یو آفتاب نے کہا کہ اسی طرح چینی ادب کا اردو زبان میں ترجمہ بھی انتہائی محدود ہے، جس کے تحت پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے 2008ء میں منتخب چینی شاعری کا اردو ترجمہ شائع کیا گیا۔