بیجنگ (لاہورنامہ) حال ہی میں ایسپن سیفٹی فورم کا انعقاد ایسپن، کولوراڈو، امریکہ میں ہوا۔ برطانوی خفیہ انٹیلی جنس سروس (MI6) کے ڈائریکٹر رچرڈ مور نے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین اب MI6 کا اعلیٰ انٹیلی جنس مشن ہے،جو "انسداد دہشت گردی سے بھی آگے ہے”۔
انہوں نے آبنائے تائیوان کے مسئلے کے حوالے سے روس-یوکرین تنازعہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مغرب کو چین کو یہ اشارہ بھیجنا چاہیے کہ "تائیوان پر فوجی قبضے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے”۔
مئی میں چین کی وزارت قومی دفاع کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، چینی فوج نے گزشتہ 30 سالوں کے دوران اقوام متحدہ کے 25 امن آپریشنز میں حصہ لیا، تقریباً 50,000 افسران اور فوجیوں کو روانہ کیا اور 16 افسروں اور سپاہیوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
چین وہ ملک ہے جس نے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سب سے زیادہ فوجی بھیجے ہیں۔ "چینی بلیو ہیلمٹس” کو کئی بار اقوام متحدہ کے اعزازی میڈل سے نوازا جا چکا ہے، اور انہیں "پیس کیپنگ آپریشنز میں کلیدی عنصر اور کلیدی قوت” کے طور پر سراہا گیا ہے۔
ادھر برطانیہ نے طویل عرصے سے دنیا میں جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے کے لیے اپنے اتحادی امریکہ کی پیروی کی ہے، من مانی طور پر دوسرے ممالک میں دراندازی، تخریب کاری اور جارحیت، بین الاقوامی محاذ آرائی پیدا کرنے، بہت سے ممالک اور خطوں میں افراتفری اور انارکی پھیلانے کی پوری کوشش کی ، اور برطانیہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن گیا ہے ۔ افغانستان کی جنگ کی مثال لے لیں۔
کچھ عرصہ قبل بی بی سی نے انکشاف کیا تھا کہ افغانستان میں برطانوی اسپیشل ایئر سروس کے سابق ارکان نے بارہا جنگی قیدیوں اور عام شہریوں کو قتل کیا تھا، اور یہاں تک کہ "قتل کا مقابلہ” بھی کروایا تھا، ایک برطانوی فوجی دستے نے افغانستان میں چھ ماہ کے قیام کے دوران غیر قانونی طور پر 54 افراد کو ہلاک کیا تھا.
حالیہ برسوں میں برطانیہ میں کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں۔ صرف پچھلے سال اکتوبر اور نومبر میں دو ایسے واقعات ہوئے جنہیں برطانوی حکومت نے سرکاری طور پر دہشت گردی کے طور پر قرار دیا تھا۔ اب، برطانوی انٹیلی جنس چیف نے درحقیقت اس طرح کے مضحکہ خیز ریمارکس کہ دئیے ہیں کہ "چین کو نشانہ بنانا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے سے زیادہ اہم ہے”۔ پتہ نہیں کہ یہ سن کر انگریز، جو اکثر دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، کیسا محسوس کرتے ہیں؟