لاہور(لاہورنامہ)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ جبری گمشدگی ایک ایسا موضوع ہے جو ہمارے سماج کے ماتھے پر کلنک کی طرح ہے ، یہ آج سے نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط ہے،موجودہ حکومت نے بل کی منظوری کی صورت میں نہ صرف جبری گمشدگیوں کوجرم کا درجہ دیا ہے بلکہ سابقہ حکومت کی جانب سے اس شق کو بھی ختم کیا گیا جس کے تحت جبر ی گمشدگی کا الزام لگانے والا شخص اگر یہ ثابت نہ کر سکے کہ اس کے پیارے کو اٹھایا گیا تھا.
یاجبری طور پر لا پتہ گیا تھا تو اس پرچہ درج ہوگا یامقدمے کا فیصلے ہونے کے بعد اس پر ایک مقدمہ چلے گا اور اسے پانچ سال تک سزا بھی دی جا سکتی ہے ۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب ہم جبری گمشدگیوں کی بنیاد مضمرات اور وجوہات تلاش کرنے کے لئے نکلتے ہیں تو میرے جیسے بندے جس نے عابد ساقی اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ زندگی گزاری ہو اور حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کا آئین اور قوانین شخصی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی گارنٹی دیتے ہیں۔
آئین کا آرٹیکل چار، نو، چودہ ،پچیس ہو سب اس سے متعلقہ ہیں۔ اگر ہم زمینی حقائق کی طرف لوٹتے ہیں تو بلوچستان سے سینکڑوں ہزاروں آوازیں آتی ہیں، خیبر پختوانخواہ سے درخواستوں کے انبار لگ جاتے ہیں،کراچی کے شہریوں کی طرف سے شکوے شکایتیں ملتی ہیں اور ہمیں جنوبی پنجاب بلکہ وسطی پنجاب سے بھی شکایات آتی ہیں کہ سالہا سال سے مہینوں سے ہمارے پیارے ہم سے بچھڑ گئے ان کی کوئی خبر نہیں ہے اور حکومت جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے ہر طرح کے قانونی اقدامات کرے وہ بھی جواب دینے سے قاصر ہے ۔
پھر ہمیں جواب ملتا ہے کہ کچھ معاملات کی وجہ سے اس کو حل کرنے کے لئے بند کمرے میں بیٹھ کر بات کرنا ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات پارلیمان کے ایوانوں میں بھی گئی ہے اور میں خوشی کے ساتھ کہوں گاکہ پارلیمنٹ کے فلور کے اوپر ہمارے وہ اراکین پارلیمنٹ بالخصوص جو کہ جبری گمشدگی سے جڑے ہوئے ہیں سیاسی نظریات کی وجہ سے یاجغرافیائی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے یا تعلق ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اس پر آواز بلند کی اور ان کی مسلسل کوششوں سے اورسول سوسائٹی سے بہت مظلوموں نے اپنی جانیں گنوا کر ریاست کو اس جگہ پر لے آئے ہیں کہ اس حساس موضوع پر کھلے ایوانوں میں بات ہوتی ہے اورسڑک پر بھی بات ہوتی ہے ۔
جب تک ہاتھی کو کمرے سے نہیں نکالیں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہوںنے کہا کہ جبری گمشدگی کے مقدمات کے لئے الگ سے خود مختار قانون نے ایسا راستہ نہیں نکالا تھا کہ اس کے مقدمات کا اندراج ہو سکے ۔ایک اچھی خبر دے سکتا ہوں کہ دو روز پہلے قومی اسمبلی نے وزارت قانون کے بل میں جبری گمشدگیوں کوجرم کا درجہ دیا ہے ،قومی اسمبلی نے اتفاق رائے کے ساتھ یہ بل پاس کیا ہے ،یہ گزشتہ ساڑھے اس کی فائل اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ میں گھوم رہی تھی ۔
سابقہ حکومت نے سول سوسائٹی کے دبائوکی وجہ سے اور سیاسی حلیفوں کے کہنے پر ایک قانون تو بنایا لیکن اس میں ایک شق شامل کر دی گئی جس کے تحت جبر ی گمشدگی کا الزام لگانے والا شخص اگر یہ ثابت نہ کر سکے کہ اس کے پیارے کو اٹھایا گیا تھا جبری طور پر لا پتہ گیا تھا تو اس پرپرچہ درج ہوگا یا مقدمے کا فیصلے ہونے کے بعد اس پر ایک مقدمہ چلے گا اور اسے پانچ سال سزا دی جا سکتی ہے ، حکومت پاکستان نے بل پاس کر تے ہوئے اس شق ختم کر دیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جب حکومت قائم ہوئی تو شہباز شریف کابینہ کی سطح پر اس پر بحث کرائی گئی اورکابینہ نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لئے یہ ذمہ داری کابینہ لے اور سات رکنی کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اسے چار ماہ کا وقت دیا گیا ، میں اس کمیٹی کو دیکھ رہا ہوں اور ہم نے چار مہینوں کے اندر متاثرہ لوگوں، متعلقہ تنظیموں ،سرکارکے محکموں اور سکیورٹی ایجنسیز سے بات کر کے سفارشات پیش کریں گے،بارہ ہفتوں میں آٹھ میٹنگز کی ہیں اور ہم نے سب سے بات کی ہے،کیبنٹ کمیٹی خود چل کر بلوچستان گئی اور مذاکرات کئے اور تحریری معاہدہ ہوا کہ مطالبات نہ صرف حکومت تک پہنچائیں گے بلکہ عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ یہ مشکل ٹاسک ہے معاملے کی سنگینی سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے اس کو ترجیحی بنیادوں پردیکھا ہے ۔