بادشاہی مسجد


بادشاہی مسجد پاکستان کی دوسری بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی مسجد ہے ، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہہے.
بادشاہی مسجد قلعہ لاہور کے مغربی جانب کھلنے والے عالمگیری دروازے کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ یہ خُوب صُورت اور تاریخی مسجد مغلیہ سلطنت کے چھٹے حکمران اورنگ زیب عالمگیر کے حکم کے تحت شاہی سرپرستی میں 1673-74 ء تعمیر کی گئی

بادشاہی مسجد فن تعمیرات کے حوالے سے کم وبیش ایک مربع قطعہ اراضی تعمیر کی گئی ہے ۔ مسجد کا داخلی دروازہ 15 فٹ اونچے چبوترے پر واقع ہے جبکہ چبوترہ کی اپنی پیمائش (65’X35′) ہے جس پر پہنچنے کے لیے 22 زینے چڑھنے پڑتے ہیں ۔ داخلی دروازے کی اونچائی 77 فٹ ہے جس کے چاروں کونوں پر مینارچے ہیں جن کی چوٹی پر گنبد ہیں۔ داخلی دروازے کے الٹے ہاتھ پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا مزار ہے ۔ داخلی دروازے کے دائیں اور بائیں جانب دو منزلہ عمارت کے زیریں منزل پر کمرہ جات ہیں جہاں محکمہ آثار قدیمہ ، محکمہ اوقاف اور سیکورٹی گارڈ کے دفاتر بنائے گئے ہیں جبکہ بالائی منزل پر قرآن محل اور وضو گاہ تعمیر کر دی گئی ہے ، ڈیوڑھی کی عمارت بھی دو منزلہ ہے اس کی پیمائش 62′-10″X66′-7″ ہے جس کی بالائی منزل پر کبھی امام مسجد اور موذن وغیرہ رہائش پذیر ہوتے تھے مگر آج کل وہاں تبرکات گیلری ہے جس میں رسول اکرم حضرت محمد ، حضرت علیؑ ، حضرت فاطمہؓ ، حضرت امام حسن ؓ ودیگر اکابرین امت کے حوالے سے تبرکات شو کیسوں میں رکھے گئے ہیں۔

بادشاہی مسجد کا وسیع وکشادہ صحن ہے جسکا مجموعی رقبہ 3,64,500 مربع فٹ بنتا ہے۔ ایوان کے سامنے ایک پلیٹ فارم ہے جو صحن سے 1′-6″ اونچا ہے اور اس کا سائز 225’X150′ فٹ ہے ۔ صحن کے وسط میں ایک تین فٹ گہرا پانی کا تالاب ہے جس کی لمبائی اور چوڑائی 50 فٹ ہے جو وضو کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
بادشاہی مسجد کے ایوان کی بیرونی طور پر پیمائش 275’X120′ بنتی ہے جبکہ ایوان کی اونچائی 80′ فٹ ہے ۔ ایوان کی چھت تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ بادشاہی مسجد لاہور کے مینار اپنی قامت میں بلند اور شکل میں عام میناروں سے قدرے مختلف ہیں۔ سطحی نقشہ میں یہ ہشت پہلو ہیں جوں جوں اوپر جاتے ہیں یہ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ بادشاہی مسجد کی تعمیر سے قبل اس قسم کے مینار مغل بادشاہ جہانگیر کے مقبرے پر تعمیر کیے گئے تھے۔ بادشاہی مسجد کے میناروں کی کل اونچائی 176′-4′ ہے سیڑھیوں کی تعداد 204 ہے جبکہ کرسی کی اونچائی 20 فٹ ہے ۔

مسجد کے صحن میں شمال، جنوب اور مشرق کی جانب حجرے تعمیر کیے گئے تھے جو قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے طلباءکے زیر استعمال رہتے تھے۔ ان کی اونچائی 21 فٹ ہے جبکہ صحن سے 3 فٹ بلند ہے۔ دالان کی اندرونی چوڑائی 13 فٹ ہے ۔ مشرقی جانب کا دالان برطانوی حکومت کے ابتدائی سالوں میں گراد یا گیا ۔
سکھوں کے عہد میں یہ مسجد مسلمانوں سے چھین لی گئی اور سرکار نے اپنی مرضی سے یہاں اصطبل بنایا ۔ انگریزی عہد میں بھی یہاں فوجیں قیام پذیر رہیں۔اسی وجہ سے مسجد کی عمارت خصوصاً صحن وغیرہ کے فرش کو بہت زیادہ تباہ کر دیا تھا ۔ 1856 ءمیں جب بادشاہی مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف آئی تو کافی حد تک مرمت طلب تھی۔1876 ءتک ہزاروں روپے کے اخراجات سے صرف بادشاہی مسجد کی ڈیوڑھی کی مرمت ہو سکی ۔
1910 ءمیں انگریزی حکومت نے چوراسی ہزار روپیہ مرمت پر خرچ کیا ۔ 1913 ءمیں بیگم صاحبہ بھوپال نے چھ ہزار روپیہ مرمت فنڈ میں دیا۔ 1939 ءمیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات نے سرکاری طور پر مرمت کا کام شروع کرایا جو 21 برس جاری رہا اور پاکستان بننے کے بعد 1961 ءمیں پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ انہوں نے مسلمان زمین داروں پر ٹیکس لگایا ۔ ابتداءمیں یہ کام محکمہ آثار قدیمہ کو سونپا گیا مگر بعدازاں مرکزی محکمہ تعمیرات عامہ کو منتقل کر دیا گیا ۔ آزادی کے بعد صوبائی محکمہ تعمیرات نے یہ کام سرانجام دیا۔