پنجاب چیمبرز آف کامرس

پنجاب چیمبرز آف کامرس کوآرڈینیشن کمیٹی کی منظوری ، ایس ایم تنویر

لاہور (لاہورنامہ)نگران صوبائی وزیر برائے صنعت، تجارت، سرمایہ کاری اور سکل ڈویلپمنٹ ایس ایم تنویر نے کہا ہے کہ پنجاب چیمبرز آف کامرس کوآرڈینیشن کمیٹی (پی سی سی سی) کی تین روز قبل منظوری دی جاچکی ہے جس کے تحت ہر ہفتے وزیراعلی آفس میں ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا.

چیمبرز حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل حل کریں گے۔ وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں خطاب کر رہے تھے۔ لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جبکہ صوبائی وزیر بلدیات و کمیونٹی ڈویلپمنٹ ابراہیم مراد، لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ظفر محمود چوہدری، چیئرمین پی بی آئی ٹی جلال حسن خان نے بھی خطاب کیا.

جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین اجلاس میں موجود تھے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ اس کے علاوہ انڈسٹریل پولیس لائزن کمیٹی کی سمری بھجوا دی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس کی جلد منظوری مل جائے گی جس سے انڈسٹریل اسٹیٹس میں مسائل کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری کے بعد کئی دوست ممالک سے ادائیگیاں بھی موصول ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ جن انڈسٹریل اسٹیٹس میں پلاٹ فروخت ہو چکے ہیں مگر ان پر انڈسٹری شروع نہیں ہوئی ان پر بھی لاہور چیمبر کے تعاون سے کام کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ صنعت کاری کے فقدان کی ایک وجہ کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ واسا چارجز، ایس ایم ای قرضوں اور اس طرح کے دیگر مسائل متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر میں انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ کا ڈیسک قائم کیا جائے جس کے ٹی او آرز جلد از جلد طے کیے جائیں تاکہ انڈسٹریز اور متعلقہ محکموں کے مسائل لاہور چیمبر کے ذریعے حل کیے جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر تمام چیمبرز کو ٹریننگ دے۔صوبائی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ابراہیم مراد نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ حکومت کا بنیادی حصہ ہے۔ مقامی حکومت تجاوزات، عمارت کی منظوری، کمرشلائزیشن، ٹی ایم ای اور پارکنگ جیسے معاملات کو دیکھتی ہے۔ ان محکموں میں جو بھی مسائل پیش آئیں ان کے حل کے لیے لوکل گورنمنٹ کے دفاتر ہمہ وقت موجود رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب بھر میں مویشیوں کی خرید و فروخت کے لیے 130 منڈیوں کو مقامی حکومت نے آؤٹ سورس کیا ہے۔ یہ مارکیٹیں 500 ملین روپے کے اخراجات کے مقابلے میں 3.7 بلین روپے کی سالانہ ریونیو پیدا کرتی ہیں۔ اس میں سرمایہ کاری کی صلاحیت ہے، جو بھی دلچسپی رکھتا ہے وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسی طرح پارکنگ کمپنیاں بھی مقامی حکومتوں کی ملکیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی فنڈ 40ارب روپے ہے۔

مقامی حکومت پانچ کلومیٹر تک سڑک بنانے کے لیے اپنے فنڈز استعمال کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی منصوبوں کے لیے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ لاہور کی معیشت کو 85 ارب ڈالر سے بڑھا کر 400 ارب ڈالر تک لے جائیں۔لاہور چیمبر کے صدر کاشف انور نے کہا کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے ملک کو زرمبادلہ کے بحران کا سامنا ہے، دس ہزار امپورٹ کنٹینرز پورٹ پر پھنسے ہیں جس کی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہوئی ہے، کنٹینرز کے ڈیمرج پورٹ چارجز ختم کرنے کے لیے نوٹیفیکیشن فوری جاری کیا جائے۔

خام مال، ضروری مشینری کی درآمد پر سو فیصد کیش مارجن، ریگولیٹری ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی ختم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ اور افراط زر کی شرح کم کی جائے اور روپے کی قدر مستحکم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ کاشف انور نے کہا کہ سموگ پر قابو پانے کے لیے انڈسٹریز کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں، دیگر عوامل پر بھی قابو پایا جائے۔

آلودہ پانی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر ڈیکلریشن سکیم کا اعلان کرے ، ٹیکس سسٹم آسان بنایا جائے اور لاہور میں سپیشل اکنامک زونز اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز قائم کیے جائیں، انڈسٹریل اسٹیٹس میں زمین کی قیمت کم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف محکمہ جات کے بورڈز میں لاہور چیمبر کو نمائندگی دی جائے، ایس ایم ایز کے لیے زیادہ فنانسنگ یقینی بنائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف شہروں میں انڈسٹری کے لیے پانی کے ریٹ مختلف ہیں جنہیں یکساں بنایا جائے۔ ڈرائی پورٹس پر 0.9فیصد سیس کی وجہ سے تاجر کنسائنمنٹس کراچی سے کلیئر کروارہے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکس ریونیو کراچی منتقل ہوگیا ہے۔ یہ سیس ختم کیا جائے۔ بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خط لکھا گیا ہے کہ چارٹر آف اکانومی بنانے میں کردار ادا کریں۔