چھن گا نگ

چین میں باضابطہ طور پر گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کانسیپٹ پیپر جاری

بیجنگ (لاہورنامہ) چین نے باضابطہ طور پر گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کانسیپٹ پیپر جاری کیا۔ گزشتہ سال اپریل میں چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے پیش کردہ گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کے بعد عالمی سلامتی تعاون کے شعبے میں چین کا یہ پہلا کانسیپٹ پیپر ہے.

جو سلامتی کے مسائل سے دوچار دنیا کو چینی دانش سے ایک حل فراہم کرتا ہے۔ کانسیپٹ پیپر میں تعاون کے بیس اہم پہلوؤں کی فہرست دی گئی ہے جوکہ واضح عمل پر مبنی ہے.

سیکیورٹی گورننس میں اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کی ثابت قدمی کے ساتھ حمایت کی جائے۔ بڑے ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی تبادلوں کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہوئے اس بات کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ بڑے ممالک مساوات پر مبنی تعاون اور قانون کی حکمرانی پر عمل کرنے میں قائدانہ کردار ادا کریں اور بالادستی اور غنڈہ گردی کی مخالفت کی جائے۔

ہاٹ ایشوز کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو فروغ دیتے ہوئے روایتی اور غیر روایتی سیکورٹی چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹا جائے۔اور عالمی سلامتی کے نظم و نسق کے نظام اور صلاحیت سازی کو مسلسل مضبوط بنایا جائے۔

چین کی جانب سے پیش کردہ گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کا "زیرو سم گیم” اور "جنگل کے قانون” پر مبنی سیکیورٹی تصور جس کی قیادت بنیادی طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ اور مغرب کر رہے ہیں سے زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔

چین کسی خاص ملک یا گروہ کی انا کی تسکین کی بجائے مشترکہ سلامتی کے تصور کو برقرار رکھنے اور ہر ملک کی سلامتی کا احترام اور ضمانت دینے کی وکالت کرتا ہے۔ چین طاقت کے ذریعے جنگل کے قانون کی بجائے سیاسی مکالمے اور پرامن مذاکرات کے ذریعے سلامتی حاصل کرنے کی وکالت کرتا ہے۔

چین سمجھتا ہے کہ بین الاقوامی سلامتی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے "علامات اور بنیادی وجوہات دونوں کا علاج ضروری ہے۔ چین جامع پالیسیوں کو بروئے کاری لاتے ہوئے سیکیورٹی گورننس کو مشترکہ طور پر فروغ دے کر ترقی کے ذریعے تضادات کو حل کرنے کا خواہاں ہے تاکہ عدم سلامتی کی بنیاد کا خاتمہ کیا جا سکے ۔

دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد اگرچہ دنیا بھر میں نئی عالمی جنگ نہیں ہوئی ، لیکن علاقائی جنگیں ہوتی رہیں. 50 کی دہائی میں کوریا کی جنگ سے لے کر 60 کی دہائی میں ویتنام کی جنگ تک، 90 کے عشرے میں خلیجی جنگ اور کوسوو جنگ سے لے کر نئی صدی میں افغان جنگ، عراق جنگ، شامی جنگ اور پھر حالیہ بڑھتی ہوئی روس یوکرین تنازع تک، ان میں سے زیادہ تر جنگوں کا آغاز کیا تو امریکہ نے خود کیا یا امریکہ کی طرف سے ان جنگوں کے لیے اکسایا گیا.

جس کے نتیجے میں عالمی امن وسلامتی کی صورتحال بگڑتی چلی گئی۔ بلخصوص سرد جنگ کے بعد دنیا کی نمبر ون طاقت بننے کے باوجود امریکہ نے سرد جنگ کی ذہنیت پر بضد رہتے ہوئے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں شدید مداخلت کی ، کلرڈ ریولوشنز برپاکیے ، علاقائی تنازعات کو ہوا دی اور عالمی پیمانے پر فوجی وسعت جاری رکھی ، جس سے انسانی المیے پیدا ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2001 سے 20 سالہ افعان جنگ میں 9 لاکھ سے زائد افراد ہلاک، لاکھوں زخمی اور کروڑوں بے گھر ہوگئے اور افعانستان کی معاشی ترقی کی بنیادیں تباہ ہو گئیں اور افغان عوام انتہائی غربت کا شکار رہے۔

2003 کی عراق جنگ میں تقریبا ڈھائی لاکھ شہری ہلاک ہوئے، 16 ہزار سے زائد افراد براہ راست امریکی افواج نے ہلاک کیے اور 10 لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے۔

امریکہ نے دنیا بھر میں 37 ملین پناہ گزین پیدا کیے ہیں اور 2012 کے بعد سے صرف شامی پناہ گزینوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہو چکاہے۔امریکہ نے ان بین الاقوامی قوانین جن کی اس نے ابتدا میں وکالت کی تھی کے حوالے سے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ جب امریکہ کے مفاد میں ہے تو اس پر عمل ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسے مسترد کیا جاتا ہے۔

امریکہ نام نہاد "قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، ان قواعد کو "خاندانی قانون و قواعد” سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف رہا ہے ۔اسے پتہ نہیں کہ "زیرو سم گیم” اور "جنگل کے قانون” پر مبنی ترقی اور سلامتی کے اس مسخ شدہ تصور ہی نے نہ صرف امریکہ کو دنیا کا سب سے زیادہ جنگجو ملک بنا دیا ہے.

بلکہ بین الاقوامی سلامتی کے نظام کی تباہی کا سبب بھی بنا دیا ہے۔ امریکہ کی ان یکطرفہ بالادستی کی کارروائیوں کی بین الاقوامی برادری نے ہمیشہ شدید مخالفت کی اور انہیں تنقید کانشانہ بنایا ہے۔