واشنگٹن (لاہورنامہ) کافی عرصہ خاموشی کے بعد کووڈ وائرس کی ابتداء کے حوالے سے سازشی نظریہ ایک مرتبہ پھر زندہ ہو چکا ہے۔ امریکی وزارت توانائی نے حال ہی میں کانگریس اور وائٹ ہاؤس کو ایک "خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ” پیش کرتے ہوئے کہا کہ کووڈ وائرس کسی فطری عمل کے بجائے چین کی ووہان لیبارٹری سے لیک ہوا ہوگا ۔
پھر انہی دنوں امریکی سینیٹ نے "کووڈ وائرس اوریجن ایکٹ آف 2023” منظور کیا، جس کا ماننا ہے کہ کووڈ وبا کا آغاز چین سے ہو سکتا ہے، اور بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وائرس کی ابتداء کے حوالے سے تمام انٹیلی جنس معلومات کو منظر عام پر لائے۔
تین سال سے زائد عرصے سے جاری کووڈ وبا کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 70 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تمام ممالک کی معیشتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چین سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے اور ضرورت بھی ہے کہ یہ وائرس آیا کہاں سے ہے۔
چین کووڈ وائرس کی ٹریسنگ میں مثبت طور پر حصہ لے رہا ہے۔ وبائی پھیلاو کے بعد سے چین وہ واحد ملک ہے جس نے ڈبلیو ایچ او کے بین الاقوامی ماہرین کو اپنے ملک میں وائرس ٹریسنگ کے لئے کئی دفعہ دعوت دی ہے۔ کووڈ وائرس کے سراغ کے حوالے سے چین نے سب سے زیادہ اعداد و شمار اور تحقیقی ثمرات شیئر کرتے ہوئے عالمی ٹریسیبلٹی ریسرچ میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔
بیس تا اکیس جنوری دو ہزار بیس کو ڈبلیو ایچ او کی ماہر ٹیم چین کی دعوت پر ووہان پہنچی اور ایک ماہ بعد سولہ تا چوبیس فروری کو ڈبلیو ایچ او کی ماہر ٹیم ایک بار پھر چین کی دعوت پر وائرس کی جامع تحقیقات کے لئے بیجنگ، صوبہ سیچھوان، صوبہ گوانگ ڈونگ اور ووہان میں گئی۔
14 جنوری سے 10 فروری 2021 تک ڈبلیو ایچ او اور 10 ممالک کی بین الاقوامی ماہر ٹیموں نے ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی سمیت 9 اداروں کا دورہ کیا اور مقامی طبی عملے، سائنسی محققین، صحت یاب ہونے والے مریضوں، عام شہریوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔
اسی دوران چین نے ماہرین ٹیم کو وہ "خام ڈیٹا”بھی ایک ایک کرکے دکھایا جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ووہان میں جس انداز سے چین نے وائرس ٹریسنگ کی تحقیقات کے لئے مدد کی، اسے ڈبلیو ایچ او کی بین الاقوامی ماہرین کی ٹیموں نےبہت سراہا اور کہا کہ چین کا کھلا پن "توقعات سے کہیں زیادہ” ہے۔
اسی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت نے کووڈ وائرس کی ٹریسنگ کے حوالے سے ایک با اختیار، سائنسی اور مشترکہ تحقیقی رپورٹ تشکیل دی ہے جس سے عالمی سطح پر کووڈ وائرس ٹریسنگ کی ٹھوس بنیاد رکھی گئی ہے۔
وائرس ٹریسنگ ایک سائنسی معاملہ ہے، اور اسے صرف دنیا بھر کے سائنسدان ہی سرانجام دے سکتے ہیں اور انہیں ہی یہ کرنا چاہئے۔ سائنسی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انٹیلی جنس والوں یا سیاست دانوں کی جانب سے ٹریسنگ کرنا یا ٹریسنگ کو سیاسی رنگ دینا یہاں تک کہ بغیر کسی ثبوت کے دوسرے ممالک کو بدنام کرتے ہوئے سائنسی ٹریسنگ کے عالمی ماحول کو "زہریلا کرنا” صرف وائرس کی سائنسی ٹریسنگ میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔
اس وقت بین الاقوامی سائنسی برادری کی جانب سے زیادہ سے زیادہ ایسے اشارے مل رہے ہیں، جن سے وائرس کی امریکہ کی فورٹ ڈیٹرک حیاتیاتی لیبارٹری سمیت دنیا بھر میں قائم امریکی حیاتیاتی فوجی اڈوں سے وابستگی کے خدشات عیاں ہوئے ہیں۔
اگر امریکہ وائرس کی لیبارٹری لیک تھیوری پر اصرار کرتا ہے تو سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں موجود ان سوالات کی وضاحت کے لئے قابل اعتماد سائنسی اعداد و شمار پیش کرے۔
جولائی دو ہزار انیس سے امریکہ کی متعدد ریاستوں میں سامنے آنے والے ای سگریٹ نمونیا کیسز ، جس کی تمام علامات کووڈ وائرس نمونیا سے مماثل ہیں ، کا سبب کیا ہے؟دو ہزارانیس کی سردیوں میں امریکہ میں فلو کے کم سے کم تین کروڑ بیس لاکھ کیسز رونما ہوئے۔ان میں کتنے لوگوں کو فلو یا نمونیا کے مریض سمجھا گیا جبکہ درحقیقت وہ کووڈ وائرس کے شکار ہیں؟
کووڈ وائرس پھیلاو سے قبل امریکہ میں فورٹ ڈیٹرک بائیولوجیکل لیبارٹری کے قریب کووڈ نمونیا کی علامات سے ملتی جلتی متعدد بیماریاں پھیل گئیں، کیا امریکہ میں ہی فورٹ ڈیٹرک بائیولوجیکل لیبارٹری سے وائرس لیک ہوا ہے؟
9 جون 2022 کو ، امریکی وزارت دفاع نے تسلیم کیا کہ اس نے گزشتہ 20 سالوں میں یوکرین کی 46 حیاتیاتی لیبارٹریوں کو مالی اعانت فراہم کی ہے۔ امریکی میڈیا ایک خصوصی انٹرویو کے لیے یوکرین گیا تو پتہ چلا کہ ان لیبارٹریوں میں واقعی سب سے زیادہ متعدی وائرس موجود ہیں، پینٹاگون نے ان لیبارٹریوں میں جو کچھ کیا اسے "انتہائی خطرناک اور خوفناک” قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
کیا کووڈ وائرس کی ابتداء کا تعلق ان حیاتیاتی لیبارٹریوں سے ہے؟برطانوی اخبار "ڈیلی میل” کی مارچ 2022 میں ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے پایا کہ کووڈ وائرس "جین” میں فروری 2016 میں امریکی کمپنی موڈرنا کی جانب سے پیٹنٹ درخواست میں شامل "جین” موجود ہے۔وجہ کیا ہے؟
چین نے کووڈ وائرس کا اعلان گیارہ جنوری دو ہزار بیس کو کیا تھا، لیکن اس کے صرف تین دنوں بعد ہی امریکی کمپنی فائزر نے کووڈ ویکسین کے کلینکل ٹرائلز شروع کر دیے تھے۔یورپی پارلیمنٹ کے رکن میسلاف نے گزشتہ سال ایک ثبوت بھی پیش کیا کہ فائزر نے دو ہزار سترہ میں ہی کووڈ ویکسین کا ٹیسٹ کر رکھا تھا۔یعنیٰ، فائزر کی جانب سے کووڈ ویکسین کا ٹیسٹ وائرس کی دریافت سے چند سال پہلے ہی کر لیا گیا تھا ۔یہ کیسے ممکن ہے؟
کووڈ وائرس کی ٹریسنگ دنیا کے تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور چین نے ایک مثال قائم کی ہے۔ اگر امریکہ واقعی اس وائرس کی سائنسی ٹریسنگ چاہتا ہے تو چین کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو امریکہ مدعو کرکے دنیا بھر کے عوام کو وضاحت دے۔