ٹو کیو (لاہورنامہ)فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ کے تابکار آلودہ پانی کے سمندر میں اخراج کے حوالے میں بین الاقوامی برادری کے شدید خدشات کے جواب میں جاپانی وزیر معیشت، تجارت اور صنعت یاسوٹوشی نشیمورا نے کہا ہے کہ "تابکار آلودہ پانی” کا استعمال ایک غلطی ہے اور جاپان سائنسی شواہد کی بنیاد پر معلومات فراہم کرتا رہےگا۔
جاپان کی جانب سےسائنس کی بنیاد پر کام کرنے کا رویہ بین الاقوامی برادری کا بنیادی تقاضہ ہے ، کیونکہ سائنس کی روح ہی سے بین الاقوامی برادری نے متعلقہ خدشات کا اظہار کیا۔فوکوشیما جوہری آلودہ پانی کے سمندر میں اخراج کے تنازعے کا مرکز پانی کی سلامتی ہے.
اگر فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ کا آلودہ پانی محفوظ ہے تو تنازع بنتا ہی نہیں۔ جاپان کے مطابق ایڈوانسڈ لیکیوڈ پروسیسنگ سسٹم (اے ایل پی ایس) کے ذریعے صاف کیا جانے والا جوہری آلودہ پانی محفوظ اور بے ضرر ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
سب سے پہلے جاپان کی اے ایل پی ایس ٹیکنالوجی قابل مشکوک ہے. جاپان نے خود بتایا کہ فوکوشیما جوہری آلودہ پانی میں 60 سے زیادہ ریڈیونیوکلائڈ شامل ہیں اور جاپان کا فوکوشیما جوہری حادثے کے آلودہ پانی کا موجودہ علاج 2012 میں تخلیق کردہ اے ایل پی ایس کے ذریعے مختلف قسم کے ریڈیونیوکلائڈز کو فلٹر کرنا ہے تاہم ان میں ٹریٹیم شامل نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ریڈیونیوکلائڈ ٹریٹیم کے علاوہ اے ایل پی ایس سسٹم جوہری آلودہ پانی میں کاربن -14 کا علاج بھی نہیں کرسکتا ۔ جاپان کی ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی نے جو نیوکلیئر پاور پلانٹ کو چلاتی ہے ابھی تک ٹریٹڈ پانی کے کاربن -14 کی کثافت کے مکمل اعداد و شمار نہیں دیئے ہیں۔
اس کے علاوہ ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اے ایل پی ایس کے آپریشن کے آغاز سے لیکراب تک کئی دفعہ فلٹر شدہ پانی میں آیوڈین 129 اور دیگر نیوکلائڈز کی کثافت معیاری لیول سے تجاوز کر گئی تھی۔ مارچ میں جاپان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اے ایل پی ایس کے ذریعے ٹریٹڈ آلودہ پانی کا تقریبا 70 فیصد اب بھی معیار کے مطابق نہیں ہے۔
جاپان کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں ہے کہ جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نے سمندر میں جوہری آلودہ پانی چھوڑنے کے پروگرام کی توثیق کی ہے۔ آئی اے ای اے کی تکنیکی ٹیم نے ابھی تک جاپان کے منصوبے کا جائزہ مکمل نہیں کیا اور نہ ہی حتمی نتیجے پر پہنچی.
اس کے برعکس اس نے نشاندہی کی ہے کہ جاپان کے منصوبے میں کئی ایسی تفصیلات موجود ہیں جو آئی اے ای اے کے حفاظتی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔
درحقیقت صرف وہ اعداد وشمار قابل اعتماد ہوتے ہیں جو منصفانہ اور غیر جانبدار تیسرے فریق اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں اور ہمسایہ ممالک کی نگرانی میں کئے جاتے ہیں۔
گزشتہ سال مئی میں چین اور روس کے پیشہ ورانہ محکموں نے جاپان کو ایک مشترکہ تکنیکی سوالنامہ پیش کیا تھا اور اسےآئی اے ای اے میں تقسیم کیا تھا۔ گزشتہ سال نومبر میں جاپان کی جانب سے دیے گئے جوابات کے پیش نظر چین اور روس نے ایک بار پھر آئی اے ای اے کو ایک نیا مشترکہ تکنیکی سوالنامہ بھیجا تھا لیکن جاپان نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
سوال پوچھنے والوں کا تعلق صرف چین اور روس سے ہی نہیں بلکہ جاپان کے ہمسایہ ممالک بشمول شمالی اورجنوبی کوریا اور بحرالکاہل کے جزائر کے ممالک سے بھی ہے۔
در حقیقت جوہری آلودہ پانی کے سمندر میں اخراج کے علاوہ جاپان کے پاس دیگر بہتر آپشنز بھی موجود ہیں۔ بہت سے سائنس دانوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے جوہری آلودہ پانی سے نمٹنے کے لئے انتہائی قابل عمل طریقے پیش کئے ہیں جن سےجاپان سمیت دیگر ممالک کی آئندہ نسلیں منفی اثرات سے دور رہ سکتی ہیں ۔
مثال کے طور پر،زلزلہ شکن پانی رکھنے کے بڑے بڑے ٹینکوں کی تعمیر. اس حوالے سے جاپان کے پاس تجربات ، ٹیکنالوجی اور سرمایہ بھی ہے. بہت سے تابکار مادے وقت کے ساتھ سڑ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹریٹیم کی ریڈیو ایکٹیو ہالف لائف 12 سال کی ہوتی ہے ۔
اگر جوہری آلودہ پانی کو 50 سے 70 سال تک ذخیرے میں رکھا جائے اور پھر چھوڑا جائے تو یہ بہت کم تابکار ہوگا۔ ایک اور مثال جوہری آلودہ پانی کو صاف کرکے اسے کنکریٹ بنانے کے لیے استعمال کرنا اور پھر اس کنکریٹ کو سڑکوں کی تعمیر یا بنیادیں بنانے وغیرہ کے لیے استعمال کرنا ہے تاکہ کنکریٹ کا انسان یا جانوروں سے براہ راست رابطہ نہ ہو۔
کنکریٹ سے بہت سے نقصان دہ تابکار مواد خارج نہیں ہوتے ، بھلے کنکریٹ بعد میں ٹوٹ جائے۔ان طریقوں کے امتزاج سے سمندر میں جوہری آلودہ پانی کے براہ راست اخراج سے پیدا ہونے والے سرحد پار مسائل کو مؤثر طور پر حل کیا جا سکتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لئے مسائل کے خطرات کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے.
لیکن جاپان کی ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی اور جاپانی حکومت نے نہ تو اس پر تفصیلی غور کیا اور نہ ہی اس کی وضاحت کی گئی۔جاپانی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی نے ان دنوں عام پبلک کو ٹریٹڈ نیوکلیئر پانی میں ہالیبٹ کی پرورش کا تجربہ دکھایا تاکہ اس بات کا ثبوت دیا جائے کہ فوکوشیما کا جوہری آلودہ پانی بےضرر ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس بات کی ضمانت کون دے سکتا ہے کہ آج ٹھیک دکھائی جانے والی ہالبیٹ کا مستقبل میں کوئی ویرینٹ پیدا نہیں ہوگا؟ کون یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ جب انسان ایسی سمندری غذائیں کھائے گا تو اسے مستقبل میں صحت کے مسائل کا سامنا نہیں ہوگا؟
جیسے بحرالکاہل کے ایک جزیرہ ملک فجی کے رہنما کامیکاامیگا نے پوچھا ہے کہ "اگر ٹریٹڈ آلودہ پانی اتنا ہی محفوظ ہے، تو جاپان اسے اپنی مینوفیکچرنگ اور زراعت میں یا عام استعمال میں صرف کیوں نہیں کرتا؟” ”
تکنیکی طور پر جاپان میں استعمال ہونے والا تخفیف کا طریقہ آج بھی 19 ویں صدی میں ہے اور انسان یا ماحولیات کے بہترین مفاد میں نہیں ۔ جاپان کے اندازے کے مطابق فوکوشیما کے آلودہ پانی کے اخراج کا وقت 30 سال یا اس سے بھی زیادہ ہوگا۔
چوں کہ بحرالکاہل میں جوہری آلودہ پانی کے اخراج کے منصوبے کے طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے، لہذا اس پر عمل درآمد سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اتفاق رائے تک پہنچنا ہی ذمہ دارانہ اور درست رویہ ہوگا۔