راولپنڈی (لاہورنامہ)پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے، اقلیتی فیصلہ تو فیصلہ ہی نہیں ہوتا اسے ماننا کیسا؟، ہم بھی آئین کی طرح کہتے ہیں الیکشن وقت پر ہوں گے.
الیکشن میں عمران خان ہار جائیں گے پھر روئیں گے، الیکشن کو نہیں مانیں گے اور کہیں گے شہباز، نواز، مریم، محسن نقوی اور رانا ثنا نے ہروایا،عدلیہ میں کسی آمر کو کٹہرے میں لانے کی جرات نہیں،آپ کا زور صرف عوام کے وزرائے اعظم پر چلتا ہے؟
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کے ہاتھوں یرغمال بننے سے انکار کردیا ،ان کا کیس ابھی تک سپریم جوڈیشل کونسل میں لٹکا ہوا ہے، چیف جسٹس صاحب آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا،آپ کو اس وقت جذباتی ہونا چاہیے تھا جب منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا،الیکشن سے متعلق مقدمہ عمران خان اور پی ڈی ایم کا تھا، صرف پی ٹی آئی کو سنا گیا.
جو مقبول لوگ ہوتے ہیں انہیں تین چار ججز کی ضرورت نہیں پڑتی، عمران خان، سہولت کاروں نے اگلے چیف جسٹس کے آنے سے پہلے کی ٹائم لائن بنا رکھی ہے،ڈرتے نہیں، توہین عدالت لگانی ہے تو لگادو،صاف اور شفاف فیصلے ہوں گے تو توہین نہیں ہوگی،عمران خان کی ذاتی زندگی سے مجھے کوئی سروکار نہیں،تم نے اپنی بیٹی کو ظاہر نہیں کیا، قوم سے جھوٹ بولا ہے حساب ہوگا، ایک وزیراعظم کو اقامہ پر نکالا جاسکتا ہے تو اگلے امیدوار وزیراعظم کو اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر نکالا نہیں جاسکتا.
جن کے کوئی اصول نہیں ہوتے، کوئی مشن نہیں ہوتا، اصول مؤقف نہیں ہوتا وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے،عمران سب کے نام لے گا ، فیض کا نام نہیں لے گا۔
بدھ کو یہاں مسلم لیگ (ن) کے وکلا ء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ہمارے پاس وہ ٹرک نہیں جو فواد چوہدری کے پاس ہے، ن لیگ کے پاس رانا ثناء اللہ ، عطا تارڑ، طلال چوہدری اور محسن رانجھا جیسے وکلا موجود ہیں۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے ایک ٹائم لائن رکھی ہوئی ہے کہ ستمبر میں اگلا چیف جسٹس آنا ہے تو اس پہلے پہلے جو سہولت کاری کرنی ہے کرلو، پوری قوم یہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں 40 برس آمریت رہی ہے، کسی منتخب وزیراعظم نے اپنی مدت کبھی پوری نہیں کی، 4 ڈکٹیٹر آئے جنہوں نے دھونس سے 10، 10 سال اقتدار میں رہے تاہم کبھی کسی عدالت نے کسی آمر کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کی.
انہوں نے کہاکہ نواز شریف کو دفتر سے نکالا گیا ان پر، مجھ پر اور پارٹی کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم ہوئے تو ہر پیشی پر وکلا بڑی تعداد میں موجود ہوتے تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں 40 برس آمریت رہی ہے.
مریم نواز نے کہا کہ منتخب وزرائے اعظم کو نکالتے رہے، سزائے دیتے رہے لیکن کبھی کسی عدالت نے اتنی ہمت نہیں دکھائی کہ کسی ڈکٹیٹر کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کرے۔انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی یہ نہیں کہ کسی ڈکٹیٹر کے آگے کھڑے نہیں بلکہ انہیں توثیق دی کہ ڈٹ کر حکومت کریں، جب نکالا، دھمکایا منتخب وزیراعظم کو دھمکایا۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جب پی سی او اور ایل ایف او کے نیچے ججز حلف اٹھا رہے ہوتے تھے تو منتخب وزیراعظم کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگایا کر عدالت میں لے کر جایا جاتا تھا۔انہوںنے کہاکہ آپ کا زور صرف عوام کے وزرائے اعظم پر چلتا ہے؟
کیا کبھی کسی نے دیکھا کہ کسی ڈکٹیٹر کو سیسلین مافیا، گاڈ فادر کا لقب ملا؟ آپ نے دوام دیا ڈکٹیٹر شپ کو، کبھی آمریت کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کی جب روکا منتخب وزیراعظم اور جمہوریت کا راستہ روکا۔انہوں نے کہا ڈکٹیٹرز کو جب بھی نکالا وکلا اور عوام نے نکالا۔
مریم نواز نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جج نے جرات کی سیٹھ وقار، جن کا نام پاکستان کی تاریخ میں زندہ رہے گا کہ انہوں نے ایک ڈکٹیٹر (پرویز مشرف) کو سزا سنائی لیکن پھر کیا ہوا کہ اس عدالت کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب الیکشن کا کیس چل رہا تھا تو سننے کو ملا کے چیف جسٹس جذباتی ہوگئے.
آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہیے تھا جب منتخب وزیراعظم کو دفتر سے نکالا گیا۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت آپ جذباتی نہیں ہوئے کہ جب آئین و قانون پر چلنے کی پاداش میں آپ کے بھائی جج اور ان کے اہلِخانہ کو سڑکوں پر رلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہ ان کی اہلیہ کو میں نہیں جانتی ہوں۔