اسلام آباد (لاہورنامہ)وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ سیاسی اور آئینی بحران سے بچنے کیلئے سپریم کورٹ کا 13 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے ،پورے ملک میں ایک ہی وقت میں الیکشن ہونے چاہئیں.اگر پنجاب میں انتخابات کروا دیئے جاتے ہیں تو قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہوں گے۔
جمعرات کو بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ملک میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، اسمبلیوں کی تحلیل اور جنرل الیکشن کے حوالہ سے آئین کہتا ہے کہ تحلیل کے بعد نوے روز میں انتخابات ہونے چاہئیں تاہم آئین اور قانو ن کی دیگر کئی شقوں میں کئی سکیمیں موجود ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 217کہتا ہے کہ ملک میں انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی زیر نگرانی ایک ہی وقت پر ہوں گے۔ انہوںنے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 218(3)کہتا ہے کہ ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی گورنر نے تحلیل نہیں کی بلکہ قانون کے مطابق وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر 48گھنٹوں کے بعد خود بخود تحلیل ہو گئی جس پر معاملہ لاہور ہائیکورٹ گیا۔ انہوںنے کہاکہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ مشاورت سے الیکشن کی تایخ کا اعلان کرے جس پر گورنر نے اپیل بھی دائر کی تھی اس طرح خیبر پختونخوا میں الیکشن کا معاملہ بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔
انہوں نے کہا کہ دو ہائی کورٹس میں معاملہ زیر سماعت ہونے کے باوجود سی سی پی او لاہور تبادلہ کیس میں سپریم کورٹ کے دو ججز نے چیف جسٹس کو نوٹ بھیجا کہ انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس کارروائی شروع کی جائے ،پہلے نو رکنی بینچ بنایا گیا دوران سماعت دو ججز نے خود کو بینچ سے علیحدہ کیا جبکہ دو ججز نے درخواستیں خارج کرنے کا حکم دیا۔ پھر پانچ رکنی بینچ بنایا گیا تو دو مزید ججز نے درخواستیں خارج کرنے کے فیصلہ سے اتفاق کیا اور بینچ تین رکنی رہ گیا۔
انہوں نے کہا کہ درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومت اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے عدالت سے درخواست کی گئی کہ اس معاملہ میں فیصلہ کرے کہ چار تین کی اکثریت سے درخواستیں خارج قرار دی گئی ہیں، اس حوالہ سے سیاسی جماعتوں اور بارکونسلز نے سپریم کورٹ سے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا جس کو مسترد کر دیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین ججز کو بینچ سے دور رکھا گیا جبکہ جونیئر ججز کو بینچ میں شامل کیا گیا،پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے فیصلہ کے بعد وفاقی کابینہ نے فیصلہ کا بغور جائزہ لیا اور پارلیمان نے قرارداد پاس کی کہ ملک میں ایک ہی وقت پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جائیں۔
انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کی تاریخ دی ہے تاہم کے پی کے کے حوالہ سے متعلقہ فورم پر رابطہ کا کہا ہے، اس طرح اگر پہلے پنجاب ار پھر کے پی کے الیکشن کرائے جائیں اور پھر دیگر دو صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کرا کے جائیں تو نہ صرف مالی مسائل درپیش ہوں گے بلکہ مستقبل میں مسلسل ایک مسئلہ پیدا ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ آبادی کے حوالے سے پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور انتخاب کی صورت میں قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال نازک ہے اور پرامن انتخابات کیلئے ملک کی فوج کے تقریباً آدھے حصہ کے مساوی عملہ مانگا گیاہے جو اس وقت دینا مشکل ہے،اس کے علاوہ رواں مالی سال کے بجٹ میں الیکشن اخراجات مختص نہ ہونے کی مالی مشکلات کا بھی مسئلہ ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہاکہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالہ سے قانونی عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں عام انتخابات ایک ہی وقت پر ہونے چاہئیں،آئین کہتا ہے کہ شفاق اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے اور ملک میں انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے آئین میں طریقہ کار بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ اقلیتی فیصلہ قابل قبول نہیں ہے۔ وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ وزیر قانون نے کہا آئینی اور قانونی معاملات پر فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ون مین شو کا تاثر نہیں ہونا چاہیے، عدالت کو فیصلہ کرنا چاہئے کسی ایک شخص کو نہیں،آئینی اور قانونی معاملات کو آئین کے تحت ہی حل کرنا چاہئے جس میں عدالت کا مشترکہ ویڑن شامل ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے معاملہ پر 184/3 پر عدالت کا حکمنامہ آیا جس کو پہلے ایک سرکلر اور پھر چھ رکنی بینچ نے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہاکہ جب یکم مارچ کو عدالت کا فیصلہ آیا تو ہمارا موقف تھا کہ تین کے مقابلہ میں 4کی اکثریت سے کیس خارج ہوا ہے۔
اس طرح چار ججز نے درخواستیں خارج کیں جبکہ دوججز نے کیس سننے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر فل کورٹ اس بات کا فیصلہ نہ کرے تو ملک میں سیاسی اور آئینی بحران شدید ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی کابینہ کی رائے ہے کہ اکثریت کے فیصلہ کو اقلیتی فیصلہ میں نہ بدلا جائے۔
حکومت سمجھتی ہے کہ اس اہم ترین قومی معاملہ پر فل کورٹ کا فیصلہ بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر ماضی میں ملک میں الیکشن کی تاریخ میں توسیع کی گئی ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ عدالت اور حکومت میں ٹکرائو کی صورت حال نہیں ہونی چاہئے۔
ججز میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے میں سیکیورٹی خدشات کے باعث انتخابات کیلئے ساز گار ماحول سے متعلق بہت سے سوالات حل طلب ہیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ 2017ئ میں حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ الیکشن نئی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔
گزشتہ مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے ڈیجیٹل مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا اور ملک میں مردم شماری کا عمل جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر دو صوبوں میں پرانی اور دیگر صوبوں اور وفاقی میں نئی مردم شماری پر انتخابات کی صورت میں مسائل پیدا ہوں گے اور سیاسی جماعتوں کو تحفظات بھی ہوں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کے مطابق ملک میں انتخابات کی شفافیت سے تنازعات نہیں بلکہ سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے فل کورٹ کے ذریعے فیصلہ کیا جائے اگر فل کورٹ نہ بنایا گیا تو ملک میں آئینی اور سیاسی بحران کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 13 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے جو بیٹھ کر چند دن میں اس معاملہ پر فیصلہ کرسکتا ہے۔ وزیر قانون نے کہا کہ فل کورٹ کے فیصلہ سے نہ صرف سیاسی جماعتیں متفق ہوں گی بلکہ پورے ملک کے عوام بھی سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے فیصلہ سے اتفاق کریں گے جس سے ملک میں جاری آئینی و سیاسی بحران سے بچا جاسکتا ہے۔