سائنسی ٹریسیبلٹی

چین وائرس کی سائنسی ٹریسیبلٹی میں مصروف جبکہ امریکہ خوف کا شکار

بیجنگ (لاہورنامہ) نوول کورونا وائرس کی وبا نے 3 سال تک دنیا کو تباہی سے دوچار کیے رکھا ہے، اور وائرس ٹریسیبلٹی کے مسئلے نے ہمیشہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔

حال ہی میں چین کی ریاستی کونسل کے انفارمیشن آفس نے ایک بار پھر دنیا کے ساتھ نوول کورونا کی ٹریسیبلٹی سے متعلق ایک پریس کانفرنس کی۔ درحقیقت ، وبا پھیلنے کے بعد سے ، چین ہمیشہ سائنسی رویے پر عمل پیرا رہا ہے ، ٹریسیبلٹی سے متعلق تحقیق کو مسلسل فروغ دے رہا ہے ، اور عالمی سائنسی ٹریسیبلٹی کا فعال حامی اور شراکت دار رہا ہے۔

وبائی صورتحال کے بعد چینی حکومت نے نوول کورونا وبا کے اعداد و شمار کے حوالے سے کھلا اور شفاف رویہ اپنایا ہے۔ چین نے ڈبلیو ایچ او کے دو بین الاقوامی ماہر گروپس کو اپنے ہاں مدعو کرنے میں پہل کی تاکہ ٹریسیبلٹی پر مشترکہ تحقیق میں تعاون کیا جاسکے ۔

اس کے علاوہ چین نے مشترکہ ماہرین کے گروپ کے ساتھ ابتدائی کیسز کی معلومات سمیت تمام اعداد و شمار اور مواد کا اشتراک کیا ہے ۔ ووہان شہر میں مشترکہ ٹریسیبلٹی اسٹڈی کا پہلا مرحلہ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا ، اور متعلقہ "چائنا پارٹ – ڈبلیو ایچ او جوائنٹ ریسرچ رپورٹ” بھی جاری کی گئی۔

اس کے بعد سے، چین نے کبھی بھی نوول کورونا وائرس کا سراغ لگانے کے بارے میں اپنی تحقیق کو روکا نہیں ہے، اور متعلقہ پیش رفت اور تحقیقی نتائج کو بین الاقوامی اور ملکی ریسرچ جرائد میں شائع کیا ہے، اور ہمیشہ دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ساتھ متعلقہ اعداد و شمار اور تحقیقی پیش رفت کو فعال طور پر شیئر کیا ہے.

چائنا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی جانب سے جی آئی ایس ایڈ پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کیے گئے متعلقہ اعداد و شمار اور ڈیٹا میں ڈی این اے بارکوڈ کے تجزیے کے مطابق ہوا نان مارکٹ میں جانوروں کے ذریعے وائرس کی انسانوں میں منتقلی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے اور یہ صرف چند شخصی مفروضے ہیں۔

یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ چین نوول کورونا وائرس کی اصلیت کا سراغ لگانے میں سائنس کی راہ پر گامزن ہے۔وائرس ٹریسیبلٹی ریسرچ ایک بہت ہی پیشہ ورانہ اور طویل کام ہے ، جس کے لئے سائنسی اور سنجیدہ رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر ، ایچ آئی وی پر تحقیق کو ایک دہائی سے زائد ہو چکا ہے اور اس کے ماخذ کے بارے میں آج بھی کچھ ابتدائی اشارے ہی ملے ہیں۔ ایبولا وائرس، جو 1976 میں افریقہ کے دریائے ایبولا کے علاقے میں پھیلا ہوا تھا، ابھی تک اس وائرس کے ماخذ کے بارے میں حقائق واضح نہیں ہیں۔اس تناظر میں نوول کورونا وائرس کو تو محض تین سال ہوئے ہیں،لہذا سوچا جا سکتا ہے کہ ٹریسیبلٹی کے کام کو ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے.

لیکن دوسری جانب امریکہ جلد بازی میں ہے، چین کے سر پر نوول کورونا وائرس کے ماخذ کی "بڑی ٹوپی” ڈالنے کے لیے بے چین ہے۔ اس نے حال ہی میں نام نہاد "نوول کورونا وائرس ٹریسیبلٹی بل” منظور کیا ہے، جس کا ہدف چین ہے۔

امریکی پولیٹیکل پریکٹس کے مطابق اس بل پر صدر بائیڈن کے دستخط کے بعد باضابطہ نفاذ کے 90 دنوں کے اندر حکومت کو اس حوالے سے ایک انویسٹی گیشن رپورٹ جاری کرنا ہوگی۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کا طریقہ کار اپنایا گیا ہے، یاد رہے کہ جب بائیڈن 2021 کے اوائل میں صدر منتخب ہوئے تھے، تو اُسی سال مئی میں انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسی کو ہدایت کی تھی کہ نوول کورونا وائرس ماخذ کی تحقیقات کی جائیں اور 90 دن کے اندر انہیں رپورٹ پیش کی جائے ۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے بائیڈن کو دی گئی اس خفیہ تحقیقاتی رپورٹ میں وائرس ماخذ کے سوال کا واضح طور پر جواب نہیں دیا گیا کیونکہ اس حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ تو رپورٹ ایک طرف رکھی ہوئی ہے ،لیکن امریکہ نے اپنا قدم نہیں روکا ۔

امریکہ کے نزدیک اگر کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے تو رائے عامہ تشکیل دی جائے ، من گھڑت نتائج اخذ کئے جائیں ، اور مفروضے پر یہ فیصلہ کیا جائے کہ وائرس ووہان لیبارٹری سے آیا تھا۔ اس طرح کی ٹریسیبلٹی نہ صرف سائنسی رویوں کی توہین ہے، بلکہ ٹریسیبلٹی کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے عالمی عدم استحکام کا ایک اہم عنصر بھی ہے ۔

چین نے ہمیشہ سائنسی ٹریسیبلٹی پر عالمی تعاون کی حمایت اور فعال طور پر حصہ لیا ہے اور دنیا کے ساتھ اعداد و شمار اور تحقیق کے نتائج کا اشتراک کیا ہے. لیکن امریکہ نے ڈبلیو ایچ او کے ٹریسیبلٹی کام کو کنٹرول کرنے اور …