چیف جسٹس عمر عطاء بندیال

حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کیلئے بیٹھے کام کر رہے ہیں، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال

اسلام آباد (لاہورنامہ)سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات پر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کیلئے بیٹھے ہیں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں۔

بدھ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل شروع کریں تاہم میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ روز عدالت نے کہا تھا نظر ثانی درخواست میں الیکشن کمیشن کے اٹھائے گئے نکات پہلے کیوں نہیں اٹھائے تھے، دوسرا نقطہ تھا وفاقی حکومت پہلے 3ـ4 رکنی بینچ کے چکر میں پڑی رہی۔

انہوں نے کہا کہ ایک صوبے میں انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کا الیکشن متاثر ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا تھا اور اپنے جواب میں 4ـ3 کا فیصلہ ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔اٹارنی جنرل کے نکات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو گھبرانا نہیں چاہیے، عدالت آپ کی سماعت کیلئے بیٹھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی معقول نقطہ اٹھایا گیا تو جائزہ لے کر فیصلہ بھی کریں گے، عدالت میں نقطہ اٹھایا گیا لیکن اس پر بحث نہیں کی، گزشتہ روز نظر ثانی کے دائرہ اختیار پر بات ہوئی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں، بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اپنے لوگوں سے کہیں کہ ہمارے دروازے پر ایسی باتیں نہ کریں، ایوان میں بھی کھڑے ہوکر سخت باتیں نہ کریں، ہم اللہ کیلئے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن جس ہستی کا کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنا کام کرتی ہے، آپ صفائیاں نہ دیں عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری ہرچیز درست رپورٹ نہیں ہوتی، کہا گیا عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی، میں تو خود مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا، پولیس نے عمران خان کی مرسیڈیز کا بندوبست کیا تھا، اس بات کو پتا نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا، ہم نے آپ کو خوش آمدید کہا، گڈ ٹو سی یو کہا۔

دور ان سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے روسٹرم پر آ کر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پر کرتی ہے، انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتا، مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 150 سال کی عدالتیں نظیریں غیر مؤثر ہوگئی ہیں، ڈیڑھ سو سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظر ثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے، اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ رولز میں نظر ثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آجائیں گے، کیسے ہو سکتا ہے سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو، آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 10 سال بعد کوئی نظر ثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے، آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ نظر ثانی دائر کرنے کے لیے مقرر کردہ مدت ختم نہیں ہونی چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ 70 سال میں یہ نکتہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتائیں، نظر ثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ رولز نظر ثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دفعہ 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کی نظر میں نظر ثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظر ثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے، اس نقطہ پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے، اب اصل مقدمہ کی جانب آئیں اس پر بھی دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک ہی دن انتخابات کرانے کا مشورہ کیوں نہیں دیا، صدر مملکت کو 218/3 کا بتایا نہ ہی 1970 کے انتخابات کا، الیکشن کمیشن نے صدر کو نہ سیکیورٹی اور فنڈز کا بھی نہیں بتایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زمینی حالات کا ذکر کیے بغیر کہا جا رہا ہے 218/3 کے تحت مزید آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی، 16 ہزار ملازمین کے کیس میں نظر ثانی خارج ہوئی لیکن عدالت نے 184/3 اور 187 کا اختیار استعمال کیا اور ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے ججز کیس میں از خود نوٹس کیس پر نظر ثانی کی تھی۔بعدازاں پنجاب انتخابات میں نظر ثانی کی درخواستوں پر مزید سماعت (آج) جمعرات کو سوا 12 بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔