واشنگٹن (لاہورنامہ)یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے اعلان کیا ہےکہ انہیں امریکہ کی جانب سے یونیسکو میں واپس آنے کی درخواست موصول ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ جولائی 2023 میں دوبارہ شامل ہونے اور نومبر کے انتخابات میں تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کی نشست پر حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
توقع ہے کہ یونیسکو کے 193 رکن ممالک آنے والے ہفتوں میں اس پر رائے شماری کریں گے۔ایک بانی رکن کی حیثیت سے ،امریکہ نے 1984 اور 2017 میں یونیسکو سے دو مرتبہ دستبرداری اختیار کی تھی۔ درحقیقت اس تنظیم سمیت امریکہ ایک درجن سے زائد بین الاقوامی معاہدوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے مسلسل دستبردار ہو چکا ہے.
جن میں ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ معاہدہ، پیرس معاہدہ، ایرانی جوہری معاہدہ، یونیورسل پوسٹل یونین، اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف، بین الاقوامی فوجداری عدالت کا قانون، عالمی ادارہ صحت، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی اور اوپن اسکائیز ٹریٹی شامل ہیں۔ حقائق نے ثابت کیا ہے امریکہ کی نظر میں بین الاقوامی قوانین محض اپنے مفاد کے موقع پر ہی موثر ہیں۔
2021 کے اوائل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوشش کر رہی ہے. یونیسکو میں واپسی کے لیے امریکی کانگریس نے گزشتہ دسمبر میں ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت یونیسکو کو 500 ملین ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تاکہ امریکہ کے ذمے یونیسکو کے واجب الادا 619 ملین ڈالر ادا کیے جا سکیں۔ دیکھنے میں تو یہ مخلصانہ قدم لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ حساب کتاب ہے.
یونیسکو تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں رکن ممالک کے مابین بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے لئے اقوام متحدہ کا خصوصی ادارہ ہے۔ عالمی ورثے اور تعلیم کے شعبوں کے علاوہ، یونیسکو مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات اور سمندرکے تحفظ جیسے امور کے لئے معیارات سازی میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔
گزشتہ ماہ یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ نے متفقہ طور پر چین کے شہر شنگھائی میں یونیسکو کے تحت سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم کے پہلے درجے کے ادارے کےقیام کی قرارداد منظور کی تھی۔ یہ ادارہ یورپ سے باہر یونیسکو کا پہلا ٹاپ درجے کا عالمی ادارہ ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ یونیسکو کے سب سے بڑے عطیہ دہندہ کے طور پر چین کا اس وقت یونیسکو پربڑا اثر و رسوخ ہے اور اگر امریکہ نے اس میں حصہ نہیں لیا تو وہ تنظیم کے طرز عمل کو تشکیل دینے کا موقع کھو دے گا۔
چین کو نشانہ بنانا امریکہ کی یونیسکو میں واپسی پرحساب کتاب کا صرف ایک حصہ ہے۔ زیادہ تر، سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق بین الاقوامی معیارات سازی کے میدان میں امریکہ بین الاقوامی برادری کے مفاد کے بہانے اپنے نام نہاد "عالمی قیادت” کے ذاتی مفادات کی تلاش کرنا چاہتا ہے.
یہ سب امریکہ کی واپسی کے وقت سے بھی عیاں ہے۔ یونیسکو میں امریکہ کی واپسی کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ مصنوعی ذہانت کی پالیسی بنا رہا ہے۔
ترقی کی غیر متوقع سمت اور تیز رفتار تبدیلی جیسے عوامل کی بدولت ، مصنوعی ذہانت پوری دنیا کے لئے پالیسی کے شعبے میں سب سےبڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں یونیسکو عالمی مصنوعی ذہانت کے انتظام میں تیزی سے شامل ہو گیا ہے۔
تنظیم نے 2021 میں مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر ایک عالمی تجویزمنظور کی تھی اور 2022 میں اس معاملے پر اپنا پہلا وزارتی اجلاس منعقد کیا۔ گزشتہ ماہ یونیسکو نے ChatGPT کے ردعمل پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے وزرائے تعلیم کا پہلا عالمی اجلاس بھی منعقد کیا۔
جس دن امریکہ نے یونیسکو میں اپنی واپسی کا اعلان کیا، اسی دن اقوام متحدہ نے مصنوعی ذہانت کے ضوابط کے منصوبوں کا انکشاف کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ستمبر میں مصنوعی ذہانت پر ایک مشاورتی کمیٹی مقرر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اقوام متحدہ کی سطح پر اقدامات کی تیاری کرے گی۔
مصنوعی ذہانت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے دنیا بھر کی حکومتوں اور کاروباری اداروں کی مربوط کارروائیوں اور ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے امریکہ ، اُس کے یورپی اتحادیوں اورچین کے درمیان مسابقت پائی جاتی ہے۔ چین کی مصنوعی ذہانت کو 2017 سے حکومتی ورک رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے بلکہ قومی سطح پر قانون سازی بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
یورپی یونین نے رواں سال مئی کے آخر میں مجوزہ مصنوعی ذہانت بل کے لئے مذاکرات کے مینڈیٹ کا مسودہ منظور کیا۔ برطانیہ اس موسم خزاں میں اے آئی سیفٹی سمٹ کی میزبانی کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک رپورٹ میں برطانیہ کی اہم شخصیات نے متنبہ کیا ہے کہ برطانیہ کو امریکہ جیسے حریفوں کے تعاقب سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں امریکی سینیٹرز نے مصنوعی ذہانت سے متعلق دو کراس پارٹی نئے بل پیش کئے۔ بلاشبہ مصنوعی ذہانت کی عالمی مسابقت شدت اختیار کررہی ہے۔
امریکہ کی واپسی کے موقع پر چین مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری میں خلوص کا مظاہرہ کرے اور ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نیک نیتی سے پورا کرے۔ گزشتہ چند سالوں کے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی مختلف عالمی تنظیموں سے دستبرداری نے عالمی حکمرانی اور ترقی کو شدید نقصان پہنچایاہے۔
امریکہ کی من مانی ” واپسی” تعلیم، سائنس اور ثقافت کی ترقی کے لئے نہیں ہے، بلکہ جغرافیائی سیاست اور معاشی مفادات کے پیش نظر ہے جو امریکہ کے مستقل "تسلط پسندانہ” انداز اور طاقت کی سیاست کو بے نقاب کرتی ہے۔
ایسا پہلے بھی ہوا تھا اور اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔