بیجنگ (لاہورنامہ)2023 کی پہلی ششماہی کے لئے چین کے سرکاری قومی اقتصادی اعداد و شمار 17 تاریخ کو جاری کیے گئے۔رواں سال کی پہلی ششماہی میں چین کی جی ڈی پی کی مالیت 59303.4 ارب یوآن رہی جو سال بہ سال 5.5 فیصد کا اضافہ ہے اور یہ رفتار دنیا کی اہم اور بڑی معیشتوں کے مقابلے میں تیز ثابت ہوئی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے چینی مارکیٹ ایک بڑا موقع رہی . کنزیومر مارکیٹ کے لحاظ سے رواں سال کی پہلی ششماہی میں ، چین میں صارفین کی اشیاء کی مجموعی خوردہ فروخت 22758.8 ارب یوآن رہی جو سال بہ سال 8.2فیصد کا اضافہ ہےاور یہ پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 2.4 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔
کھپت کے اخراجات میں اضافے نے معاشی ترقی میں 70 فیصد سے زیادہ کا حصہ ڈالا، جو گزشتہ پورے سال کے تناسب سے بھی زیادہ ہے۔ جرمن آٹومیکر مرسڈیز بینز گروپ نے حال ہی میں جاری رواں سال کی پہلی ششماہی کے فروخت کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں.
جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی مارکیٹ اس کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ بنی ہوئی ہے اور رواں سال کی پہلی ششماہی میں کمپنی کی چین میں گاڑیوں کی فروخت 3 لاکھ 74 ہزار 600 یونٹس تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہے۔
چین کے اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع کی شرح 9.1 فیصد رہی جب کہ یورپ اور امریکا میں یہ شرح 3 فیصد اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں 4 سے 8 فیصد ہے۔
اس سال کے آغاز سے ہی چین نے اعلیٰ معیار کے مارکیٹ سسٹم کی تعمیر کو فعال طور پر فروغ دیا ہے اور مائیکروسافٹ، ایپل، ٹیسلا، فائزر، اسٹار بکس، ریو ٹنٹو گروپ اور سعودی نیشنل آئل کارپوریشن جیسے ملٹی نیشنل انٹرپرائزز کے ایگزیکٹوز چین آئے ۔
کئی بین الاقوامی شخصیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ "چین عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے آپریشن کے لئے اہم سہارہ فراہم کرتا ہے” ۔اس وقت عالمی معیشت کو افراط زر، جغرافیائی سیاسی تنازعات، توانائی اور خوراک کے بحران جیسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے "استحکام” نہایت ضروری ہے جو چین فراہم کر رہا ہے۔
چین کی اقتصادی بحالی کے برقرار رہنے کے تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ بین الاقوامی برادری وسیع پیمانے پر اس بات پر متفق کیوں ہے کہ "چین میں سرمایہ کاری مستقبل میں سرمایہ کاری کے برابر ہے”۔