باجوڑ (لاہورنامہ) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے باجوڑ دھماکہ کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افسوس ناک واقعہ خیبرپختونخوا میں بدامنی کی لہر کا تسلسل ہے، سوال یہ ہے کہ شہریوں کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟
ایک طرف پاکستان، ازبکستان اور افغانستان کو ریلوے ٹریک سے جوڑنے کی تیاری ہو رہی ہے دوسری جانب پوری پاک افغان سرحد پر ٹینشن برقرار ہے۔ امن کے بغیر ترقی و خوشحالی ممکن نہیں، سرجوڑ کر سب سے پہلے اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا، حکومت قیام امن کے لیے قومی مشاورت کا آغاز کرے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے ضلع باجوڑ حاجی لونگ کے مقام پر جے یو آئی (ف) کے مقامی رہنماﺅں ضیا اللہ جان، حاجی مجاہد اور دیگر افراد کی شہادت کے موقع پر تعزیتی اجتماع اور بعدازاں خار ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ امیر جماعت اسلامی کے پی پروفیسر محمد ابراہیم بھی ان کے ہمراہ تھے۔
سراج الحق نے کہا کہ وفاقی حکومت آخری دنوں میں اپنے معاملات سمیٹنے یا سنبھالنے میں لگی ہے، خیبرپختونخوا کی نگران حکومت سیکرٹریٹ تک محدود، جس کا واحد کام ٹرانسفر پوسٹنگ رہ گیا ہے۔
علاقہ میں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی، ٹارگٹ کلنگ، دھماکے، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری کے واقعات عام ہیں، عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک انتہائی مشکل سے دوچار ہے، صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی موجود نہیں، پارلیمنٹ میں تاحال بدامنی کے معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا.
وفاقی کابینہ کا اس موضوع پر کوئی خصوصی اجلاس منعقد نہیں ہوا، عوام کہاں جائیں، کس دروازے پر دستک دیں؟ باجوڑ واقعہ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے، لیکن کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، کسی اور ملک میں ایسا اندوہناک حادثہ ہو جاتا تو حکومت عوام سے معافی مانگ کر فوری مستعفی ہو جاتی.
یہاں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے مالاکنڈ میں اتوار کو تاریخی جلسہ، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی، کے دوران گورنر، نگران وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا، دونوں ذمہ داری قبول کریں۔
حکمران عوام پر بوجھ ہیں، پورا ملک پریشان اور مشکل سے دوچار ہے۔ انھوں نے کہا کہ کے پی اور بلوچستان شدید بدامنی کا شکار، لوگ اپنے گھروں میں محفوظ نہیں، مساجد، پولیس لائنز میں دھماکے ہو رہے ہیں، جلسہ گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، غمی و خوشی میں شرکت کرنا مشکل ہو گیا.
سندھ اور پنجاب کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کا راج ہے تو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسلح جتھے دندناتے پھر رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے عوام کے لیے خوف کی وجہ سے رزق کمانا بھی دشوار ہو گیا۔ حکمران اپنے محلات اور بلٹ پروف گاڑیوں میں سیکیورٹی کے حصار میں رہتے ہیں، غریبوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
حکمرانوں کے بچے ، فیملیاں اور کاروبار باہر ہیں، مشکل وقت میں یہ خود ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت خیبرپختونخوا میں دس برسوں میں کوئی بہتری نہیں لا سکی، رہی سہی کسر پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی اور انہی کی بنائی ہوئی نگران حکومت نے پوری کر دی۔ حکمران جماعتیں بری طرح ایکسپوز ہو گئیں یہ ملک کو امن اور خوشحالی نہیں دے سکتیں۔
مسائل اسی وقت حل ہوں گے جب قوم ووٹ کی طاقت سے ان آزمائے ہوئے حکمرانوں سے جان چھڑائے گی، حل صرف جماعت اسلامی ہے جو ملک کو حقیقی معنوں میں امن، ترقی اور خوشحالی دے سکتی ہے۔