مریم نواز

رضوانہ کی طرح کے ہزاروں کیسز ہیں جو چھپا دئیے جاتے ہیں، مریم نواز

لاہور(لاہورنامہ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ جس ملک ،معاشرے اورعدالتوں میں طاقتور اور کمزور ،امیر اور غریب کی تفریق کی جاتی ہے .

بڑے اورچھوٹے کے معیار بنائے ہوئے ہیں اس معاشرے کو دس بار سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کہاں جائے گا،رضوانہ تو ایک کیس ہے جو سامنے آ گیا ہے ایسے ہزاروں کیسز ہیں جو خوف ڈر ، طاقت اور دبائو کے استعمال سے چھپا دئیے جاتے ہیں،اس کیس میں ایف آئی آر تودرج ہو گئی لیکن ضمانت بھی مل گئی کیونکہ وہ ایک جج صاحب کی اہلیہ ہیں.

جب مجرم خود منصف کی کرسی پر بیٹھا ہوگا ،مداخلت کرے گا اپنی طاقت استعمال کرے گا تو مظلوم کو انصاف کیسے ملے گا۔

انہوں نے بد ترین تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کی جنرل ہسپتال میں عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر پرویز رشید، عظمیٰ بخاری اور دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ جنرل ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ خالد بن اسلم نے مریم نواز کو بچی کی صحت کی صورتحال اور اسے علاج معالجے کی سہولیات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی.

جبکہ مریم نواز نے بچی کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی اور ان سے تفصیلات حاصل کیں ۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ میرا مقصد اس ظلم پر آواز بلند کرنا ہے ،جتنے بھی ارباب اختیار ہیں چاہے وہ وفاقی حکومت میں ہیںیا صوبائی حکومت میں ہیں چاہے اعلیٰ عدلیہ یا ماتحت عدلیہ ہے سب سے میری استدعا ہے کہ مجرم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، چاہے جج ہو کوئی بھی ہو اس کو قانون کے شکنجے میں لانا اور سزا دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

مریم نواز نے کہا کہ آئی سی یو میں گئی ہوں ، اس کی جلد تیزاب سے جلائی ہوئی ہے ، سکن پرگہرے زخم ہیں، ڈنڈوں سے مار مار کر اس کی ہڈیاں توڑی ہوئی ہیں ، اس کے بازو فریکچر ہیں،اس کی ٹانگیں دیکھیں اس پر بھی ڈنڈے مارے ہوئے ہیں،دانت ٹوٹے ہیں، بتایا گیا ہے کہ بچی کو ڈنڈوں سے مارتے رہے،دیوار سے سر مارتے تھے ۔

میں نے بچی سے سوال کیا آپ نے چھ مہینے یہ ظلم کہا کسی کو بتایا نہیں تو اس نے کہا کہ مجھے کہتے تھے اگر کسی کو بتائو گی تو تیسری منزل سے دھکا دے دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قانون سازی کی کمی نہیں ہے ، شہباز شریف کے پچھلے دور میں جب وہ وزیر اعلیٰ تھے بچوں کے لئے خصوصی قانون پاس ہوا تھا جس کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں سے کام لینے پر پر پابندی تھی.

اگر اس پر عملدرآمد ہوتا تو آج یہ کیس دیکھنے کو نہ ملتا،ایف آئی آر بھی درج ہو گئی لیکن ضمانت بھی مل گئی کیونکہ وہ ایک جج صاحب کی اہلیہ ہیں،جب مجرم خود منصف کی کرسی پر بیٹھا ہوگا وہ مداخلت کرے گا اپنی طاقت استعمال کرے گا تو مظلوم کو انصاف کیسے ملے گا، جس معاشرے میں جن عدالتوں میں طاقتور اور کمزور میں تفریق کی جاتی ہے .

امیر اور غریب میں تفریق کی جاتی ہے، بڑے اورچھوٹے کے معیار بنائے ہوئے ہیں اس معاشرے کو دس بار سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کہاں جائے گا،بچے ہمارا مستقبل ہیں ان کی حفاظت تعلیم و تربیت اور سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے ،ہم سب کی ذمہ داری اورفرض ہے ،میرے لئے جو تکلیف دہ بات ہے وہ یہ ہے کہ رضوانہ ایک کیس قوم کے سامنے آگیا ہے.

پتہ نہیں اس طرح کے کتنے کیسز ہیں جو خوف ڈر میں طاقت کے استعمال اور دبائو سے چھپا دئیے جاتے ہیں۔