بیجنگ (لاہورنامہ) جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں 15 واں برکس سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔ چین، برازیل، بھارت اور روس کے رہنماؤں نے برکس تعاون اور مشترکہ تشویش کے اہم بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا اور "برکس اور افریقہ: شراکت داری کو گہرا کرنا، باہمی ترقی کو فروغ دینا، پائیدار ترقی کے حصول اور جامع کثیر الجہتی کو مضبوط بنانا” کے موضوع پر بات چیت کی اور وسیع تر اتفاق رائے پر پہنچے۔
بین الاقوامی سطح پر ایک اہم قوت کے طور پر” برکس” کے کردار پر چینی صدر شی جن پھنگ نے خاص طور پر کہا کہ "بڑے بین الاقوامی معاملات پر، برکس ممالک نے ہمیشہ معاملے کی حقیقت کی بنا پر، منصفانہ طور پر بات کرنے، کام کرنے، اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے ، بیرونی دباؤ کے سامنے نہ جھکنے اور دوسرے ممالک کی جاگیر نہ بننے پر زور دیا ۔ یہ بیان بہت سی ابھرتی ہوئی معاشی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے دلوں کی آواز ہے۔
شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ برکس تعاون ایک اہم مرحلے میں ہے، اور یہ ضروری ہے کہ اتحاد اور خود کو بہتر بنانے کے اصل ارادے پر عمل کیا جائے، مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنایا جائے، اعلی معیار کی شراکت داری کو فروغ دیا جائے، عالمی گورننس کی اصلاحات کو زیادہ منصفانہ اور معقول سمت میں فروغ دیا جائے اور دنیا کو مزید یقین، استحکام اور مثبت توانائی دی جائے۔ اس مقصد کے لیے شی جن پھنگ نے ترقی، سلامتی اور تہذیبوں کے باہمی سیکھ سے متعلق متعدد عملی اقدامات تجویز کیے ہیں۔
اقتصادی میدان میں تعاون پر شی جن پھنگ نے تجویز پیش کی کہ برکس ممالک کو ترقی اور احیاء کی راہ پر ہم آہنگ ہونا چاہئے اور "ڈی کپلنگ ” اور معاشی جبر کی مخالفت کرنا چاہئے۔ عوامی سطح پر تبادلوں کے شعبے میں تعاون کے حوالے سے شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ تہذیبیں متنوع ہیں اور ترقی کے راستے بھی متنوع ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے۔
عالمی حکمرانی کے پیش نظر شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ بین الاقوامی قوانین اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں پر مبنی ہونے چاہئیں اور اپنے قوانین یا گروہی ضوابط کو بین الاقوامی قوانین کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ برکس ممالک کو حقیقی کثیرالجہتی پر عمل کرنا چاہئے اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر بین الاقوامی نظام کی حفاظت کرنا چاہئے۔