لاہور(لاہورنامہ)پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر محمد الفریدظفر نے کہا کہ ڈپریشن کا علاج ڈاکٹرز اور ماہر نفسیات کے پاس ہوتا ہے، لوگ تعویز گنڈوں کا سہارا نہ لیا کریں اور با قاعدہ علاج معالجے کی طرف رجوع کریں۔
انہوں نے کہا کہ خود کشی بھی ایک نفسیاتی مرض ہے جو مختلف عوامل اور حالات کے نتیجے میں انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ (ڈپریشن) کی وجہ سے مریض کا نا امید ہو کر انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے موت کو گلے لگا نا ہے اس لیے خودکشی کو محض غربت، معاشی بدحالی سے جوڑنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔
ان خیالات کا اظہار پروفیسر الفرید ظفر نے لاہور جنرل ہسپتال شعبہ سائیکاٹری کے زیر اہتمام خود کشی روکنے سے متعلق آگاہی واک کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
پروفیسر جودت سلیم، ایم ایس پروفیسر ندرت سلیم، ہیڈآف دی ڈیپارٹمنٹ سائیکاٹری ڈاکٹر فائزہ اطہر، ڈاکٹر اسامہ،ڈاکٹر رافع، ڈاکٹر انیلہ، ڈاکٹر فرحانہ، شہناز ڈار سمیت ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل سٹاف نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔جنہوں نے آگاہی بینرز و پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جبکہ اس سال کا تھیم”عمل کے ذریعے امید جگانا”ہے۔
پروفیسر جودت سلیم اور ایم ایس پروفیسر ندرت سہیل کا کہنا تھا کہ ایل جی ایچ میں سٹیٹ آف دی آرٹ سائیکاٹری وارڈ موجود ہے جہاں سینئر ڈاکٹرز مریضوں کے علاج کے لئے دستیاب ہوتے ہیں لہذا ڈپریشن کے مریضوں کو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے اوراہل خانہ کوبھی ایسے مریض پر خصوصی توجہ، اس کی دلجوعی اور کونسلنگ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ مریض حالات کی سنگینی کے زیر اثر کسی تنہائی کا شکار ہو کر اپنی جان نہ گنوابیٹھے۔
پروفیسر فائزہ اطہر نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10لاکھ افراد اپن زندگی کی خاتمے کی کوشش کرتے ہیں اور آج عالمی دن منانے کا مقصدبھی خودکشی کے واقعات میں کمی لانے کے لئے عوامی شعور اجاگر کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک اور جائزہ رپورٹ کے مطابق ہر روز دنیا بھر میں 3ہزار افراد خود کشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں 15سے44سال کی عمر کے لوگ زیادہ تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ پروفیسر فائزہ اطہر نے خودکشی کی وجوہات میں بتایا کہ حادثاتی صدمات کا لاحق ہونا، منشیات کا استعمال اور رشتوں کا قطع تعلق شامل ہے،اسی طرح مالی مشکلات کا رونما ہونا،کسی قریبی عزیز کی اچانک موت اور ذہنی توازن برقرار نہ رکھنے سے بھی کوئی شخص خود کشی کی طرف مائل ہو جاتا ہے.
جس سے بچاؤ کے لئے ہمیں تمام ضروری اقدامات برؤئے کار لانا چاہئیں۔
پرنسپل پی جی ایم آئی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دینی تعلیمات سے لا علمی اور معاشی و سماجی حالات کے دباؤ میں آکر لو گ اپنی محرومیوں، بیماری کے علاج اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے تعویز گنڈوں، جھاڑ پھونک کا سہارا لیتے ہیں جو مسئلے کا حل نہیں بلکہ بہت سی سماجی اخلاقی خرابیوں کو جنم دینے کا باعث ہے.
جس سے غریب لوگوں کا مزید استحصال ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ، جاپان، برطانیہ اور ترقی یافتہ ممالک میں خود کشی کی شرح پسماندہ غریب ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے،اس مسئلے کے حل کے لئے ہمیں دین اسلام کی تعلیمات کو مد نظر رکھنا اور فروغ دینا ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ کسی بھی حالت میں انسان کو اپنے اوپر مایوسی طاری نہیں کرنی چاہیے جس کے خوفناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
پروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے لوگ خودکشی کرتے ہیں جنہیں معاشی مسائل کا سامنا نہیں ہوتا بلکہ وہ حالات کی یکسانیت سے گھبرا کر خود کو ختم کر لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے کے مخیر اور صاحب ثروت لوگوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پسماندہ اور غریب طبقات کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے،روزگار کمانے اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ان کی مدد کریں تاکہ وہ لوگ جو مالی حالات سے تنگ آکر خود کشی کرتے ہیں ان کو بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کے معاشی حالات کچھ اچھے نہ تھے اور تاریخ سے یہ پتا چلتا ہے کہ مکہ، مدینہ کی ریاست میں لوگ انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود خود کشی کا تصور نہیں کرتے تھے جس کی بنیادی وجہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ تھا۔
پروفیسر الفرید ظفر نے واضح کیا کہ دین اسلام میں خود کشی حرام ہے اور خود کشی کرنے والا شخص انسانی جان کے قتل کا مرتکب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بھی وہی سزا رکھی ہے جو کسی شخص کو بلا وجہ قتل کرنے کی ہے اور اس پر قرآن مجید کا وہی حکم نافذ ہوتا ہے جس میں کہا کہ "اگر کسی نے ایک انسان کو نہ حق قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور اگر کسی شخص نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔
واک کے اختتام پر شرکاء میں آگاہی پمفلٹس بھی تقسیم کیے گئے اور آؤٹ ڈور میں مریضوں کی کونسلنگ بھی کی گئی۔