زیرو ڈالر شاپنگ

امریکہ میں "زیرو ڈالر شاپنگ” ایک عام رجحان، سی ایم جی کا تبصرہ

واشنگٹن (لاہورنامہ)امریکہ میں "زیرو ڈالر شاپنگ” ایک عام رجحان بن رہا ہے جس کا طرہقہِ کار یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظم لوگوں کا ایک گروپ "سامان لوٹنے” کے لیے اسٹور میں داخل ہوتا ہے اور پھر برق رفتاری سے اٹھائی گئِی چیزوں کے ساتھ فرار ہوجاتا ہے، اسے امریکی ازراہِ مذاق ” زیروڈالر شاپنگ” کہتے ہیں ۔

امریکہ کی نیشنل ریٹیل فیڈریشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2021 کے مقابلے میں 2022 میں امریکا میں ریٹیل کے خلاف منظم جرائم میں 26.5 فیصد اضافہ ہوا ۔ 2021 میں امریکہ کے خردہ فروشی سے متعلقہ نقصانات 94.5 بلین ڈالر تھے۔

سوال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اس طرح کے جرائم کے پیش نظر، کیا امریکی پولیس کو قانون کے نفاذ میں اضافہ کرنا چاہیے؟ مگرحقیقت یہ ہے کہ امریکی محکمہ پولیس کو ‘ اہلکاروں کی کمی’ کا سامنا ہے۔ متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق، جرائم کی بلند شرح، شدید دباو والے کام اور پولیس اور عوام کے درمیان تنازعات کے باعث ، امریکہ میں پولیس کا پیشہ پہلے سے کہیں زیادہ "ناپسندیدہ” بنتا جا رہا ہے.
اس کے علاوہ، امریکہ نے ہمیشہ سنگین جرائم پر قابو پانے کو فوجداری انصاف کے نظام کا بنیادی حصہ سمجھا ہے، کیونکہ منشیات اور دہشت گردی سے لڑنا ووٹ حاصل کرنے کی کلید ہے اور حکومت کی طرف سے "معمولی جرائم” کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے.
کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ "زیرو ڈالر شاپنگ "اور "فلیش موب رابری” کا رجحان امریکی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑے فرق کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت امریکہ میں 37 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
دنیا کے نمبر ایک سرمایہ دار ملک کی حیثیت سے امریکہ کی ظاہری "دلکشی” امیر اور غریب کے درمیان فرق کے داغ کو چھپا نہیں سکتی۔ "زیرو ڈالر شاپنگ "اور "فلیش موب رابری”کے عجیب و غریب رجحان کا ابھرنا حادثاتی نہیں ہے، بلکہ امریکی معیشت کی ساختی خامیوں اور سماجی حکمرانی کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔ طویل مدت میں، امریکہ معاشی کمزوری اور معاشرتی افراتفری کے ایک سفاکانہ بھنور میں پھنس سکتا ہے ۔