بیجنگ (لاہورنامہ) چینی صدر شی جن پھنگ نے ہانگ چو میں 19ویں ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب کی استقبالیہ ضیافت میں تقریر کرتے ہوئے کہا، "ایشین گیمز امن، اتحاد اور رواداری کے لئے ایشیائی عوام کی خواہشات کی عکاس ہیں۔ ہانگ چو ایشین گیمز کے انعقاد سے یقینی طور پر ایشیائی ممالک کو چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تعاون کو مضبوط بنانے، ایشیائی ممالک کی خود اعتمادی ، تہذیبوں کے درمیان تبادلوں ، باہمی سیکھنے میں مسلسل اضافہ کرنے اور مشترکہ طور پر ایشیائی تہذیب کا ایک نیا شاندار باب رقم کرنے کے اقدامات کو فروغ ملے گا۔
منگل کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق چینی رہنما کا بیان ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ ایشین گیمز نہ صرف ایشیائی کھیلوں کا ایک عظیم الشان ایونٹ ہے، بلکہ ایشیائی ثقافت کا ایک تہوار ، ایشیا کی اجتماعی خواہشات کا مظہر اور ایشیا کے اعتماد کا ایک عملبردار ہے۔ یہ ایک دوستانہ تبادلہ ہے جو سیاسی اور جغرافیائی تنازعات سے بالاتر ہے، اور انسانیت کےہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے اقدام کی ایک زندہ تشریح ہے.
کھیل کبھی بھی صرف کھیل نہیں رہے، قدیم یونانی اولمپک گیمز سے لے کر حالیہ ایشیائی گیمز تک، کھیلوں نے ہمیشہ لوگوں کے مساوی تبادلے، باہمی سیکھنے اور قدر کی نگاہ سے ایک دوسرے کو دیکھنے کی نیک خواہشات کا مظاہرہ کیا ہے، لہذا "سرحدوں کے بغیر کھیل” ہمیشہ بین الاقوامی اولمپک نصب العین کی ایک اہم قدر اور تصور رہا ہے، خاص طور پر آج کی دنیا میں غیر معمولی تبدیلیوں اور اینٹی گلوبلائزیشن لہر کے تناظر میں یہ تصور انسانی ترقی کے لئے اپنی زیادہ سے زیادہ اہمیت کو ظاہر کرتا ہے.
ثقافتی تنوع اور تبادلے جدید بین الاقوامی اولمپک تحریک کے اہم افعال ہیں۔ جدید اولمپک تحریک کے بانی پیئر ڈی کوبرٹن نے پہلے بین الاقوامی کھیلوں کی کوآرڈینیشن کانفرنس میں ہی ” اولمپک تحریک کی بحالی کے آئیڈیل کا مقصد روایت اور جدیدیت، مشرقی اور مغربی تہذیبوں کو یکجا کرنا ” کا اقدام پیش کیا تھا۔ ایشین گیمز ایشیائی ثقافت کا ایک تہوار ہے جو ایشین گیمز کے مقابلوں اور پرفارمنس ایونٹس کے تعین اور انتظام میں مکمل طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
چین کے مارشل آرٹس،جاپان کے جوڈو کراٹے،کرغیزستان کی کوراش ریسلنگ،جنوبی ایشیا کی کبڈی اور دیگر کھیل جو مخصوص ایشیائی خصوصیات کے حامل ہیں، ایشیائی ممالک اور خطوں کو اپنے کھیلوں اور ثقافتی خصوصیات کو ظاہر کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور ایشیائی ثقافت کے تنوع اور شمولیت کا مکمل مظاہرہ کرتے ہیں.
گزشتہ ایشین گیمز میں فلپائن کے وفد کی نائب سربراہ شہزادی جیسل کیرام، جو "بنکاک سیلاٹ” اسپورٹس ایسوسی ایشن کی صدر بھی ہیں، انہوں نے سی ایم جی کو انٹرویو دیتے ہوئے ” بنکاک سیلاٹ ” کو خصوصی طور پر متعارف کرایا کہ ” بنکاک سیلاٹ ” دراصل مختلف مارشل آرٹس کا مجموعہ ہے، جس نے انڈونیشیا میں جنم لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ تمام مارشل آرٹس کسی حد تک ملتے جلتے ہیں،جو پرفارمنس کھیلوں اور کومبیٹ اسپورٹس میں تقسیم ہیں۔ ” بنکاک سیلاٹ ” گریس اور توازن پر زیادہ توجہ دینے والا ایک خوبصورت کھیل ہے۔
مجھے یقین ہے کہ شہزادی جیسل کیرام مستقبل میں ” بنکاک سیلاٹ ” کو فروغ دینے کے لئے انتھک کوششیں کریں گی اور یہ ان کا مقصد ہونا چاہئے کہ وہ ” بنکاک سیلاٹ ” کو ایشین گیمز اور یہاں تک کہ اولمپک گیمز میں بھی متعارف اور شامل کروائیں۔ جب کھیلوں کے معنی کی بات آتی ہے تو شہزادی جیسل کیرام نے کھیلوں کی گہری تفہیم کو یوں بیان کیا: "تمغے جیتنا صرف کیک پر آئسنگ ہے، علاقائی کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کا مطلب دوسروں کے ساتھ دوستی قائم کرنا ہے، کیونکہ کھیل ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں اور میرے خیال میں سب سے اہم چیز ہمیشہ لوگوں کے درمیان تعلقات ہیں”۔
ایشین گیمز دنیا کی سب سے بڑی آبادی، سب سے بڑے رقبے اور بہت زیادہ متنوع نسلی گروہوں کے حامل براعظم میں اتحاد اور ترقی کا ایک خوبصورت ذریعہ ہے، اور یہ ایشیا اور دنیا میں اتحاد اور تعاون کے لئے طاقت بھی فراہم کرتا ہے.
اسی جذبے اور طاقت کی چین نے بھی بھرپور حمایت کی ہے ۔ 1990 کے بیجنگ ایشین گیمز سے لے کر آج کے ہانگ چو ایشین گیمز تک، چین نے تین دفعہ ایشیائی گیمز کی میزبانی کی ہے ۔ ایک ایشیائی اور عالمی طاقت کی حیثیت سے ، چین اپنی ذمہ داریوں کو کبھی نہیں بھولا، تاکہ دنیا اتحاد اور دوستی کی گرم جوشی اور طاقت کو محسوس کرسکے جو پورے ایشیا اور یہاں تک کہ دنیا کے لیے بھی مثبت اہمیت کی حامل ہے۔