فلسطین اسرائیل مسئلہ

امریکہ فلسطین اسرائیل مسئلہ پر کبھی بھی غیر جانبدار ثالث نہیں رہا، رپورٹ

اقوام متحدہ (لاہورنامہ) امریکہ نے غزہ سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کو ایک بار پھر ویٹو کر دیا۔

اس مسودے کا بنیادی مقصد غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی پر عمل درآمد، تمام یرغمالیوں کی فوری طور پر رہائی، انسانی امداد کی رسائی کو یقین دہانی اور جبری نقل مکانی کی مخالفت کرنا تھا۔

یہ قرارداد  نہ صرف سلامتی کونسل کا اتفاق رائے تھی  بلکہ جنگ بندی اور جنگ کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کا اتفاق رائے اظہار بھی تھی۔چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں پو چھا کہ امریکہ نے خصوصی طور پر اس قرار داد کے خلاف ووٹ کیوں دیا؟  

امریکہ نے اس حوالے سے ایک بے بنیاد وجہ بتائی ہے کہ قرار داد کی منظوری  "فلسطین اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کے معاملے پر جاری مذاکرات کے لیے سازگار نہیں تھی۔”

اکتوبر 2023 میں فلسطین-اسرائیل تنازعہ کے نئے دور کے آغاز کے بعد سے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین-اسرائیل کے معاملے پر 8 بار ووٹنگ ہوئی، اور صرف دو قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ امریکہ بارہا اپنی ویٹو پاور کا استعمال کر چکا ہے جو سلامتی کونسل کی کارروائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔

دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ فلسطین اسرائیل مسئلہ پر کبھی بھی غیر جانبدار ثالث نہیں رہا بلکہ ہمیشہ جانبدار رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی سیاستدان اسرائیل کو ناراض کرنے اور اس سال کے انتخابات پر اثر انداز ہونے سے خوفزدہ ہیں۔

اس کے علاوہ، امریکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کر کے میدان جنگ میں اسرائیل کے لیے جگہ اور وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ساتھ ہی، وہ نہیں چاہتا کہ اقوام متحدہ اس مسئلے کے حل میں بنیادی کردار ادا کرے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے اس دور کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فلسطین کے آزاد ریاست کے حق کو امریکہ اور اسرائیل نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔

امریکہ نے اسرائیل کو دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرنے پر آنکھیں بند رکھی ہیں۔ حال ہی میں، سینئر اسرائیلی حکام نے "فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرنے” کی سیاسی دھمکیاں بھی جاری کی ہیں۔

جب کہ امریکہ سلامتی کونسل میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے مسودے کی قراردادوں کو ویٹو کرنا جاری رکھے ہوئے ہے، وہ اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرتا رہتا ہے، جس نے تنازع کو پھیلانے اور بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اگر امریکہ مشرق وسطیٰ میں خطرناک صورتحال  اور قتل و غارت گری کو ہری جھنڈی دکھاتا  رہا تو غزہ کی جنگ ایک تباہی میں تبدیل ہونے کا امکان ہے جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ سلامتی کونسل کی طرف سے مزید کارروائی ضروری ہے اور امریکی ویٹو کو غزہ میں جنگ کو روکنے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔